آج صاحب! میں نے اپنے حیوان سے دوستی کرلی تھی، میں نے قبول کر لیا جسم کے ہر ہر ولولے کو، اور روح کی ہر ہر کروٹ کو ، میں نے مان لیا تھا صاحب! فرمایا دن میں ستّر مرتبہ “استغفراللہ” کہنا چاہیے ! ہم نے کہا ہم تو ابھی “قبول” ہی کر رہے ہیں جسم و جان کی حدتّوں کو! یہ تو کر لینے دیجیے ! صاحب ، ہم مانے ہی نہیں ، ہم دیکھے ہی نہیں !
سارا جھگڑا ، ہم مانے ہی نہیں ، ہم دیکھے ہی نہیں کا ہی تو ہے۔ معافی مانگتے، کاہے کا بین کرتے ! آپ تھے ہی نہیں !
ایسے میں جوؔن لپکے ؛ فرمائے
ہم لپکے کہ “تھا” ہی لے لیجیے ! تا، تھا، تا تھا، تھا، تھا تھیہ . . . آپ سمجھ گئے کہ ریکارڈر اَؔٹک گیا ہے .. ساز میں ایسے جُھول بھی “ج” سے ہی آتے ہیں .. جی ، پلیز! ج سے جمع کر لیں ! تقسیم نہ کریں ! جی پلیز پہلے ” جمعہ“ پڑھ لیں ! ! پڑھ لیے صاحب ! جِیم سے جمعہ! اور جمع بھی کر لیے ، مگر جب معاملہ “جماع “کا آیا تو آ پ بگڑ گئے ! کہ یہ ہو نہیں سکتا ، یہ نہیں ہوگا ! ! کیوں صاحب ، کیوں نہیں ہو گا؟ جب جیم سے جمع کی بجائے تفریق کر لیے، اور جب جمعہ میں ، ہفتہ ، اتوار اور پیر بھی شامل کر لیے، تو صحیح سے جماع کیوں نہیں کر سکتے؟ جب جِیم سے اجتماع ہو سکتا ہے تو اُس میں جماع کیوں نہیں ہو گا؟ “الف نکال کر وہاں چلے جائیے اور ت یہاں رہنے دیجیے اور کر لیجیے جتنا جماع کرنا ہے !!!
وہیں ناں صاحب ! ” تھا“اور ” گا “ کا بھی جھگڑا ہے ! دَہر میں “جھگڑا” ہی تھا! ایسا خبیث لفظ تھا کہ جدھر دیکھو پھیلتا چلا جاتا ہے ! جھگڑنے کی بیماری لفظوں کو لاحق ہو جاتی ہے صاحب! یہی صورتِ حال، حق، کو لاحق ہے ۔ حق بہ حق ہو تو کمال ہے لیکن مہنگا بہت ہے ! ذیادہ تر تو حق ناحق کے ساتھ ہی ملتا ہے ! دوئی ہے ناں صاحب ! الفاظ پر برابر طاری ہے .. جِیم جھگڑا جگھڑا ، لگھڑا بگڑا !
ایسا مشکل لفظ تھا صاحب، آج تک لکھنا نہ آ سکا!
بروز اتوار ایک فرانسیسی نوجوان کے ساتھ کافی شاپ میں بیٹھا ہوں ، ہاٹ چاکلیٹ پی رہا ہوں ! اٹھائس سالہ کلیمونٹ پوچھنے لگا کہ آپ اتنی زبانیں کیسے سیکھ لیتے ہیں ، ہم لپکے کہا ہمارے بابا جی کو ستائس زبانیں آتی ہیں اور اُن میں سے آٹھ زبانیں ایسی ہیں جو اُن کے علاوہ کسی کو بھی نہیں آتیں ، ہم وہی آٹھ زبانیں بولتے ہیں. .. باقی کا ڈھول ڈھمکا آپ کیجیے ! سیکھیے !
جب سے بابا جی محمد یحییٰ خاؔن صاحب نے ایک ٹی وی شو میں میزبان کو ایسا جواب دیا ہم دھنگ رہ گئے ! کہا وہیں آٹھوں زبانیں سیکھیں گے ! آج سیکھ گئے تھے صاحب ! ہم وہیں زبانیں جو ریختہ وہ شیفتہ ہیں ! آج یہ جان گئے تھے کہ مجنون ہوں میں ، ج جان سے جنوں ہوں میں ! ہمیں بابا جی ، جانِ جنوں کہے ، ہم جان گئے ! کہ جنت اور جِنت میں کوئی ہیر پھیر نہیں ، جوان ہے تو حیوان بھی ہوگا، پھر سوچنے لگے کہ جو “گا “، ہو ، وہ ”تھا “بھی تو ”ہے“ ! اور جو ” تھا“ ہے وہ گا بھی ہو سکتا ہے ، تھا گا ، گاتا ہی جا.. جا ، گا، با جا بجا .. ہم کہے کہ لکھتا جا ، وہ کہے کہ گاتا جا..
آج ہم نے جسم کی ریختی کو قبول کیا آج انسان حیوان کی دوستی ہے !
(بَوؔن کا بنجارہ)