جی صاحب ! کرم ہی کرم ہے، عطا ہی عطا ہے !
”جود “ ہے اور” سخا “ ہے ، وفا ہی وفا ہے ! اِک مدت سُمبؔن جانا ہوا، جی صاحب، بارہ کہؔو کے پار کی گھاٹیوں میں ایک فقیر کے پاس جاتے تھے ہم! کیا دیکھتے ہیں کہ بچپن اور جوانی بھی آپ ہی کی نظر ہو گئے، اتنے در بدر ہو تے رہے کہ دَر ویش ہو گئے ! تھام کے بیٹھ گئے ” آپ“ کا آنگن! جی صاحب!! اب کہ خود کو سید وارث شاؔہ سرکار کے اُس حجرے میں پاتے ہیں، جہاں آپ نے شہرہ آفاق” ہیر راؔنجھا “ قلم فرمائی، ہم کی ، آپ کی ، آپ کی سنگت کی ، ہر ہر دہلیز کو چُما کیے تھے صاحب! اور آپ چُپکے سے کہے کہ ، بولو ؛
کرم ہی کرم ہے ، عطا ہی عطا ہے !
ہم کہے جُود کی سخا کیجیے !
عطا کیجیے !
کوئی سُخنِ سخا !
وفا
بہ وفا!
کوئی حرفِ دعا دیجیے !
کیا سنتے ہیں ! کہ اِک شور مچا ہے! جی ، بہت شور! شور کے ساتھ شور مل کر شور شرابا بنتا جا رہا تھا۔ ایک صاحب کہے کرم ہے تو ثابت کیجیے!! ہم جھٹ کہے کہ کرم کا اثبات ، ” ثبات“ پر مبنی ہے! ثبوت کیا ہو؟ ” ثابت“ کیا ہو! ؟
جو بھی ہے آدھا آدھا کرو! کوئی کہے پورا تولو!!! اِک بولا پہلے تولو پھر کچھ بولو! جی صاحب! کیا کہتے خاموش ہوئے ! کہ خاموشی ، کلام کا اثبات ہے! نفی اور اثبات کا کھیل تھا صاحب! ہوئے تو آپ کیے! نہ ہوئے تو بھی آپ کیے! یعنی کبیر داؔس درست فرمائے تھے کہ ،
؎ کہا کہی جو میں کیا
تم ہی تھے مجھ ماہی!
وہاں میؔر گنگنائے ،
ناحق ہم مجبوروں پر، تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں جو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بد نام کیا
جی مؔیر کے فاعل آپ ہی تھے ، آپ ہی ہیں ، فاعل بھی ، فعال بھی اور تو اور ، فعال و افعال کے بھی ! اِک قاری صاحب پڑھے .. فعال لما یرید!!! وہاں مولانا رومیؔ کے ہاں حاضر ہیں ، کیا ہے کہ قونیہ ؔ میں پڑے ہیں ! مزار شریف کے احاطے میں دیکھ رہے ہیں ! فرمانے لگے ،
؎ ہر کہ پیرِ ذاتِ حق را یک نہ دید
نے مرید و نے مرید و نے مرید
آپ کہے کیا خاک عطا ہے؟ یہ کیسی وفا ہے؟ ہم کہے بگڑیے مت ، ہم “قضا” پڑھ لیے ! جی صاحب! اب کہ خود کو مسجد شیرِ ربانی ؔ میں پاتے ہیں ! کیا ہے کہ حساب کر رہے ہیں ! مولوی صاحب نے کہا، کہ قضا نمازیں تو ادا کرو پہلے ! بڑے آئے با جمناعت نماز پڑھنے! ہم پوچھے قضا کیسے ” ادا“ ہو گی! قضا ادا نہیں ہو سکتی تھی! ہم کہے کہ ا؟جی چھوڑیے قضا تو ادا ہونے سے رہی ، ہاں البتہ ” عطا“ پر ” وفا “ممکن ہے !
جی ایک کے ساتھ ایک لے جائیے ! رہے میؔر و خسروؔ تو یہ رہنے دیجیے ! یہ ہم رکھ لیتے ہیں !
تھوڑا جی لیتے ہیں ! خیل خیال کے خیامی خلیل خراماں خراماں چلتے ہیں ! ہمیں ابھی خلوت دیجیے !
(بَون کا بنجارہ)