Skip to content

نشست 29: تنہائی!

جی صاحب، اب کہ تنہائی ہے، محفل نہیں ہو گی۔ محفل میں تنہائیاں ہیں یہ تو واصف صاؔحب کہہ گئے تھے، ہم کر گئے ہیں ! جی صاحب، تنہائی میں ہی بیٹھے ہیں ، تنہا ہی بیٹھے تھے.. اب کہ منہاج القرآن اسکوؔل ہے ، کہا بڑی میڈم نے کہ اِسے پیٹا جائے !! سب سے پرے بیٹھایا جائے اور کوئی اِس سے بات نہ کرے .. دشمن کو بھی ” پیارا“ کہتا ہے ! جی صاحب، کہا تھا ہم نے پیارا! سبھی کو!

قصہ یہ ہوا کہ ہمیں شوقِ مصوری تھا، رنگ و نگارِ حیات کو دیکھا کیے ہم بھی لکھا کیے ! کہ اِس پر بھی بحث ہے کہ لکھنا بہتر ہے یا کسی نقش میں رنگ بھرنا.. سماعت و لمس میں فوقیت بصر کو حاصل ہے .. کیا ہے کہ حواس ہیں، کیا ہے کہ احساس ہے .. جی صاحب، ہے احساس؟ آپ کو چاہیے؟ ابا میاں نے کہا اپنے اندر ” احساس“ پیدا کرو! جانتے ہو احساس کیا ہوتا ہے؟ ہم جانتے تھے ، لیکن کہے سمجھا دیجیے ! وہ موٹر سائیکل کو خوب تیزی سے اسپیڈ بریکر سے گزارے ، ہم دونوں اچھلے، فرمانے لگے کہ اب ہم آرام سے بھی آ سکتے تھے!

یہ احساس ہے ! پیدا کرو!

احساس ہی احساس تھا.. حساّس کے لیے .. ح اور س سے ہی سانس تھی! اب کہ بابا ؔجی کے ساتھ ہوں، قونیہ میں بیٹھے ہیں ۔ کہنے لگے آپ سگریٹ چھوڑ دیں! ہم بولے آپ پروفیسر احمد رفیقؔ کی چھڑوائیں ! کہنے لگے مجھے اللہ میاں نے بھیجا ہے ! واہ صاحب ، کہے تھے آپ نے بھیجا ہے ! ہم دُبک گئے .. کہا ، اُن سے کہیں کہ ہمیں کس نے بھیجا ہے ؟ سب کو آپ نے ہی حاضرِ حشر کر رکھا تھا.. سبھی آپ کے تھے ، سبھی آپ کے ہی تو ہیں ..

یہ کردارِ محض، یہ لفظوں کا خانہ خراب.. یہ زبان و لسان .. انسان و حیوان.. یہ سب کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے ہیں .. مگر دیکھتے ہیں اور شہادت دیتے ہیں ، اُسی الف تنہائی کی جو سبھی میں یکساں ہے .. خفا ہوئے کہا سانس اچھی آئے گی! ہم نے کہا آئی ہی کہا ں تھی.. سانسیں بھی گنے چُنے کی، اور مانگے تانگے کی ذات! جی صاحب ، دن اور رات ہمارا اوڑھنا بچھونا تھے .. جی صاحب چادر دیکھ کر پاوں پھیلائیے .. ہم نہ پھیلائے تھے صاحب .. خاموش دیکھتے ہیں ! الف دیکھتے تھے !

جی صاحب ! کیسی بات ہے کہ الف ہمیں بلُھے شاہ نے سمجھایا فرمایا ؎ اِکو الف تیرے درکار !

توبہ صاحب ! الف اور بٰ ایک ہی بات ہے .. یہی کہنا تھا کہ باتیں ہو چلیں .. تنہا رہیے ! الف رہیے!

(بَون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے