جی صاحب! لالہ زار تھے تو لب و رُخسار بھی تھے .. کیا ہوا جو ہم لب کو لعل اور رُخسار کو گلزار لکھ بیٹھے تو؟ نہ لکھتے صاحب؟ تو کیا لکھتے ؟ کہ ہر لکھنے والے نے منظر کو اپنی نظر سے ہی دیکھا تھا۔ ناظر صرف اپنے منظر کی شہادت کا پابند ہے! جی صاحب ، پابند تو ہے ہی ، پا بجولاں بھی ہے .. پابجولاں تو ہے ہی پابہ گِل بھی ہے ! جی صاحب ، صنوبر ہے! مِس صنوؔبر کی چپت کیسے بھول گئے ؟ آپ کہنے لگے کہ وہ بھی لکھیے ! لکھیے ہر ہر واردات کو جو رُخساروں پر گزری !
آہ کہ کون جانتا !!
آہ کہ کوئی دیکھتا ہی نہیں تھا!
اجسام میں بپا ہنگاموں سے پرے کوئی چل رہا تھا! چلتا جا رہا تھا! کیا ہے کہ فرش آئینے تھے .. کیا ہے کہ عکس ہی عکس تھے .. ذات تھی ہی نہیں ! یعنی کرنے کو کوئی بات نہیں تھی، بس رات تھی اور ایک ہی رات تھی! جی صاحب! آپ ذات پوچھے! کہا ذات برادری اہم ہے ، قال قبیلہ بتاو تو! یہاں کبیر داؔس جھٹ سے کہنے لگے؛
؎ جات نہ پوچھو سادھو کی پوچھ لیجیئے گیان
مول کرو تلوار کا پڑی رہن دو میان
سادھو کو کبیر ؔ داس تلوار کہے ہیں ! جی ہم بھی تلوار کہتے ہیں ، لیکن ننگی بھی کہتے ہیں ! ننگی تلوار !! جی ، تیغ بے نیام تو تھی مگر دو دھاری بھی تھی .. جی صاحب ، تلوار، “لا” کی تھی! ایسے میں سائیں سید میراں بھیکؔھ چلے آئے فرمانے لگے ؛
بھیکھاؔ فقیری کٹھن ہے جو لوکاں بہانے کھیل
چُگھا پھوُنکے جو آپنا تاں صاحب کا میل
جی صاحب ، پھُونک چکے تھے .. آپ کے میل کی خاطر ! آپ کہے ہم خط لکھے ہیں ! ہم میل کے انتظار میں تھے .. جی یہ میل، ای- میل ہی ہوگا ! اب سب ڈیجٹل ہو گیا ہے ، میل ملاپ بھی ، وصل و فراق بھی، آن لائن ہی دستیاب ہوں گے .. جی آپ آن لین بھی آ جائیں ، جی جو ہمیں زوُم پر سننا چاہتیں ہیں، وہ بھی لاگ اِن کر لیں !
(اَز بَون کا بنجارہ )