Skip to content

نشست 27: آغوش

Ürgüp, Cappadocia 2012

اب کہ آپ کی آغوش ہے، جی صاحب! اور دل ہے کہ خاموش ہے ! کیا کہتے کہ ہر چہرہ بولتا تھا ، جو خاموش ہے وہ بھی محوِ کلام ہے ! جی صاحب آوازیں ہی آوازیں .. بول رہا ہے تو کوئی بلک رہا ہے ، کوئی بھونک رہا ہے تو کوئی غرّا رہا ہے ، کوئی چیختا ہے تو کوئی چپکتا ہے .. جی صاحب .. چپکیے مت .. ہم مجمع کو ایک بار پھر بہت احترام سے کہتے ہیں کہ الگ الگ ہو کر بیٹھیں ..

اپنے اپنے حلقہ میں ہی ووٹ ڈالیں .. جی صاحب لام کا ووٹ ! واہ صاحب، اب کہ ڈی پی ایؔس اسکول ماڈل ٹاؔون میں خود کو پاتے ہیں .. . ہم بھی کہیے کہ ڈالنا چاہتے ہیں ، ووٹ! کوئی ڈلوانے والا نہ تھا۔ جی صاحب، سنّاٹے ہی تھے ، دندناتے بھی تھے . .. اُس اندھیر نگر ی میں بھی آپ کے آنے کی ” آشا“ تھی ہمیں .. جی صاحب آشہ تھی، میم سے ہی تھی .. کیا ہے کہ رابطے ہیں .. جی صاحب .. فون ہی فون ، نمبر ہی نمبر .. آپ کہے کہ “ڈی پی ایس “ کیا ہے؟ بھیاّ ہم لپکے کہ لفظ ہیں ، حروف ہیں ، حروف کے لفظ مخفف بنے ہیں .. جی صاحب … ڈھیروں بھیڑوں کی ایک ساتھ آوازیں .. اُن آوازوں میں آپ کی ہی ساعتیں تھیں .. آہٹیں تھیں .. ہم سُن رہے تھے ..

؎ کبیرا راماؔ مر گئے کرشناؔ مر گئے مر گئی لَکُھؔو بائی

اس سادھو کو کیوں نہ پوجیئے جس کو موت نہ آئی

جی صاحب ! نہ آئی تھی ، نہ لانے پائی تھی .. ایسے میں کبیر داسؔ پھر سے گنگنائے ،

؎ چاہ گئی چنتا مٹی مَنوا بے پر واہ ..

جس کو کچھ نہ چاہیے وہی شہنشاہ!

جی صاحب فقیر ہی باد شاہ ہوتا ہے .. باد کا شاہ .. بُود کا فقیر!

جب شکیل صاحب ؔ فرمائے کہ “ آئندگان کو بود نہ بود سے کیا واسطہ”، ہم سمجھ گئے صاحب ! کہ آئندگان بھی ہیں .. آنے والے بھی ، جانے والوں کی طرح قطار در قطار ہی ہیں ،لفظ ، اجازتِ انزال چاہتے ہیں .. .

(بَون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے