Skip to content

نشست 26: زندگی کا راز

زندگی کا راز آدمی اپنی بپتا سے ہی سمجھ سکتا ہے ، کسی کی بتائی لاکھ باتیں ، سنی حکایتیں اور واعظ و دَروس چنداں کام نہیں آتے.. لکھی عبارتیں ، سُنی کہاوتیں اور تو اور ، ہوتی حکایتیں بھی .. جی صاحب، .. نامناسب سی لگتی تھیں .. جی صاحب، تناسب کون بناتا؟

کوئی تھا ہی نہیں !

سفر تھا اور ایک تنہا سفر .. ایسے میں اڈا اؔسٹاپ پر کھڑا ہوں ، قریہ کی بھیڑ بھاڑ ہے .. جِسے کوئی دھوم دھام لکھ رہا تھا ، کوئی خوب کام، ہمارا تو دم گھٹ رہا تھا صاحب .. شور شرابا ہے تو کہیں خون خرابا.. چندے ماہ تاب کیا آفتابہ!؟ آہ صاحب ! آفتاب پر بات پھر کریں گے ، ابھی ماہ تاب سے تو نبٹ لیں .. جی صاحب! قریہ کی ہر ہر دوشیزہ کے نام میں میم تھی ! کوئی یاسمین ہے تو کہیں نسرین بھی میم سے ہی ہے ! شمیم ہے تو بلقیس بھی میم سے ہی ہے .. آمنہ ہے تو نبیلہ بھی میم سے ہی ہے .. میم ٹرانس جنڈر ہے صاحب ! مذکر میں بھی ہے اور مونث میں بھی ، آپ سمجھ گئے کہ میم تو مخنث میں بھی ہے .. کیا میم کی بات ہے !

دائرہ ہے ! گُردوں ایک میم محیط ہے .. جو بحرِ محیط میں گامزن ہے ! ابھی لیٹے ہیں کہ چکرا گئے ہیں .. فضائے بسیط سے افلاک اور وہاں سے لولاک تک .. لفظ ہی لفظ بکھرے تھے .. ہم نے چھُو کر دیکھا، کیا ہے کہ دھاگے ہیں .. جی صاحب ، حرفِ کُن کے دھاگے! بُن رہے تھے ، بن رہے ہیں .. ہو رہے ہیں. . . کیا ہے کہ گفتگو ہے، کیا ہے کہ ساحری ہے ! لفظ کی سوداگری، جادو ہے صاحب ، ہر میٹھے بول میں جادو ہے ! فریب تھا، کِسی بے وفا کا.. دائرہ تھا ، لا انتہا کا .. جی صاحب انتہا تھی ہی نہیں .. انتہا ہے ہی نہیں .. تو خیر اڈا اسٹاپ پر کھڑا ہوں ، حالتِ سفر میں ہوں .. تنہا ہوں .. کہ اکرم راہی ؔ صاحب کے ریکارڈ لگے ہیں .. کہا عیسائیوں کی بستی ہے .. ہم نے پوسٹر پڑھا ، لکھا تھا، درد کا راہی ، اکرم راہی .. واہ صاحب ! ہم پڑھ کر بلکنے لگے .. جی کیا زیارت کریں اور بتلائیں کہ ” درد کے راہی“ وہ اکیلے نہیں ہیں .. سبھی ہیں .. جی ، یہی ہیں ! آپ کہے تو ایسا کر لیجیے درد کو میم سے لکھ لیجیے .. کہ ہر میم سے ، ہر دائرے سے .. ہم بگڑ کر رہے .. سنبھل کر رہے .. کیا ہے کہ دائرے ہیں .. کیا ہے کہ آ رہے ہیں .. اور آنے میں یاد رہے کہ حروف کی پیانوں پر سے چل کر آئے تو بیت ہووَؔن بننا .. کہ دُھن بجے .. کوئی ہو سکے .. ورنہ ایسا کرو کہ کُود جاو! کسی حرف پر پیر مت دھرنا .. کیا ہے کہ پا بندیاں ہیں .. کیا ہے کہ ہو رہے ہیں .. خاموشی کی اُس نگری میں .. جہا ں ہونا نہ ہونا ایک سا ہو.. اب کہ لکھنا سیکھ چکے تھے .. اب کہ رُکنا یاد نہیں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے