جی صاحب اندراج کیسے ہو پائے گا، اُن راستوں کا، اُن آہٹوں کا، کو آپ کی چاپ سنے ، ہم جی دھڑکے! جی صاحب! دھڑک دھڑک جائے ! فارسی میں ، دم دم ، ہونے والا ، یہاں ایک ہی دم میں ہو گیا تھا صاحب! جی صاحب ، دم، لیا نہیں تھا! دم بھی ڈلوایا گیا تھا، یعنی کروایا گیا تھا! جی صاحب لاہور کے نواح میں بولی جانے والی زَبان کے محاورے میں ، دم کروایا جاتا ہے، جبکہ پوٹھوہار اور بالخصوص پنڈی میں دم ڈلوایا جاتا ہے ! آپ کہے کہ اُن کا تو ڈلوانا بنتا ہے ! آخر پنڈی کے ہیں ! جی صاحب ہم سمجھ گئے کہ ڈلوانے میں اور راول پنڈی میں بھی لام ہی ہے ! توبہ صاحب! لام کا بھلا کیا کام ہے ، کہ ہر لفظ میں گھس جاتا ہے ! فرمایا لام کا ہی کام ہے ! ابھی یہی دیکھ لیجیے کہ ہر عالم، میں کئی عالم ہو سکتے ہیں ، اب اِس جملہ کو جیسے بھی پڑھیے یعنی عالم، کو عالَم کہیں ، اجی ، جس کو جو بھی کہیں، لام ، تو برقرار ہے ! جی صاحب! آپ دیکھے بولے، مُسّلم کھڑا ہے ! کیسا لام ہے ! آپ سمجھ گئے کہ جس حرف کو بھی جب لکھیں گے تو لفظ میں ہی لکھیں گے، خط ہوگا ہی ہوگا.. جی دوبارہ دیکھیے ، یہی کہیں رکھا ہوگا.. خط تھا صاحب، ارسال کیا گیا تھا، کہیں “ڈالا” گیا تھا.. آپ جان گئے کہ ارسال میں بھی کوئی لام ہی ہے ! آج کل میں ، لام ، کا معمہ ہے ! دعا کیجیے حل ہو جاوے! آپ نے لام دیکھا.. حل ، کا لام، حلوے کا لام! جی صاحب ، آم ہے اور ساتھ میں ایک عدد لام ہے ! جَون صاحب دیکھے تو کہنے لگے ..
؎ ذندگی اِک لام ہے کہ جس پہ
آہ کی جائے واہ کی جائے
ہم نے لطف اُٹھایا ، ہم جھٹ سے پکارے حضور لطف میں بھی لام ہے ! لام کے کام نرالے ہیں ، ہم بولے کہ برالے میں بھی لام ہے ! چند روز پہلے آپ کا فون آیا ، پوچھا کیے کہ کیا حالات ہیں !؟ ہم نے کہا والی جناب حالات میں بھی لام ہے ! یعنی قصور کسی کا بھی نہیں ، حالات میں لام کا ہونا ایک لفظی حقیقت ہے ، کیا کیا جاے! ہم نے عرض کی ، پروفیسر احمد رفیق اؔختر صاحب سے کہ قبلہ !
آپ نے جھٹ سے اشارہ کیا، قبلہ کے لام کی طرف!
ہم نے اِگنور کیا اور بات جاری رکھی ، قبلہ ، زبان میں موجود قّلت کا لام بھی واضع کیجیے ! لفظ میں ہی لام ہو تو کوئی بات کیجیے ، کی جائے؟ آپ ایسا کیجیے زبان بھی شروع سے بنائیں . . کیوں کہ لام اور گاف کا ایک ساتھ ہونا ممکن نہیں ہے .. اِسی وجہ سے فسادِ زمن بپا ہیں .. اِسی وجہ سے کوئی انسان خوشحال نہیں کیوں کہ حال میں بھی لام ہے ! آپ ہم سے کہتے ہم حال میں سے لام کو خارج کر دیتے ! تاکہ حالات لام والے نہ ہوتے ! کچھ اور ہوتے .. آپ نے گوشوارہ نکالا کہ ، ہم م م م م .. حال، میم سے لکھ لو! میم کا مراقبہ ، لام ، کے بغیر ممکن نہیں تھا! ہم مسکین لکھے صاحب ! آپ نے فرمایا “ بہت خوب “ .. کاف سے لکھو گے؟ ہم نے تہجی کے کاف دیکھے .. دائیں بائیں بکھرے پڑے تھے .. کاف ہی کاف! ابھی آپ دیکھیے انگریزی کی ایک آوز ہے ، جِسے وہ kaf لکھنے کی بجائے calf لکھتے ہیں .. کِسی سے غلطی ہو گئی ہو گی! لیکن آپ دیکھیے کہ ٹھیک کی گئی ہے ، جی صاحب ، L لکھتے ہیں ، بولتے نہیں ہے ! کالف ، نہیں صاحب ، کاف ہے ! تو پس ثابت یہ ہوا! کہ ہر کاف کے باطن میں ایک لام ہوتا ہی ہوتا ہے ، لام اور کاف مخالف ہیں ، ایک دوسرے کے! ہمیں حال لام اور کاف سے نہیں چاہیے !
حال ، جی اچھے والا دِکھائیے ! جی ، دوسرے والا، کوئی میم سے ہی دِکھا دیجیے ! آب جدوّل گھمائے ..
حالِ محبت، مریض، مریضِ محبت، مسکنِ ازل، میم متوالا، میم مردَم، می آید، می رقصم، می گردم!!
گردم تھ صاحب ا، رقصم بھی میم سے ہی تھا.. جنابِ عثمانؔ مروندی، کے کلام پر ہم ، می رقصم، نہ ہوئے تھے؟ ہوئے تھے صاحب سرمد کی رُعبایات پر بھی اور حافظِ شیرازؔ پر بھی ! جی صاحب دیوانہ وار گردم رہے ..قریہ قریہ رقصم رہے .. ذرا دیکھئے تو! طرف و اطراف میں آوازیں پڑی ہیں .. قلم چل رہی ہے ! آپ کہیے علم قلم سے ہے ! ہم نے منت کی کہ میم سے کر دیجیے ! میم میٹھی ہے میم معافی ہے میم کا معنی ہے ! ہم نے مسیحا و مریم کو ماہِ منوّر میم سے ہی پایا! جی صاحب ، میم خاموشی !
خط میں نقطے یا صفر کی صورت میں لکھی جاتی تھی، نکتہ تھا کہ -*ری تھی ! موری میں بھی میم ہے ! سلطان باہؔو فرمانے لگے
؎ شریعت دے دروازے اُچے راہ فقر دا موری ہُو
عالم فاضل دین نہ لنگھن جو لنگھے سو چوری ہُو
جی صاحب! معرفت میم سے تھی لیکن “ فقر” بھی میم سے ہی تھا۔ فقر کی املا درپیش ہے ، کوئی مکّر لکھ بیٹھا ہے ، کوئی اکڑ لکھ بیٹھا ہے اور کوئی مگر، مذکر، ذکر لکھ بیٹھا ہے .. جی صاحب ، فقر کو سمجھنے والا کہتا ہے کہ فقر بھی میم سے لکھو! میم ہی ہے ، میم کو اُلٹا لکھو یا سیدھا، دائیں سے پڑھو یا بائیں سے .. میم ، ہی ہے ! فقر کو میم سے لکھو، اور اوپر نقطے ڈال دو! جی صاحب ، یُوں فقر بھی مل جائے گا تمہیں ، اور ملے گا بھی میم والا.. بون کا بنجارہ ہے .. آپ سمجھ گئے کہ بنجارہ میم سے ہے ! بنجارم ہے ! بنے جا رہے ہم ہیں! جی میم کا اندراج کر لیں ! علم و معلوم ، میم سے ہی ہیں !