جی صاحب ، بکرا منڈی ہے، اور بکِر مندی بھی ! یعنی بکروں کی منڈی تھی صاحب! دوندے ، چوگے اور یہاں وہاں کی ہر قسم برابر لدی ہے ! گلوں میں رسیاں ہیں تو کہیں قلادوں میں گھنٹیاں ہیں ! گاف گھنٹیاں ! جی صاحب اندر سے خالی ! خیالی گھنٹیاں ! ذرا سُنیے تو، بج رہی ہیں .. بجے جا رہی ہیں ! گھنٹیاں ہی گھنٹیاں .. گاف ہی گاف ! آگے ، پیچھے اور اوپر نیچے میں بھی کاف گاف کا ہی فرق ہے ! اب کہ ڈھوک سیّداں میں ہیں، قبلہ اسرار الؔحق شاہ صاحب کے حجرہ انور میں ہیں ، ماہِ رمضان ہے اور ہم مینگو کا جوس اُٹھا لائے ہیں !
آپ روزہ و فاقہ میں وقت بیتاتے ! ہمارے لیے خادم کو کہا ، گلاس لے آئیے ! پوچھا کیسے ہیں ! ہم کہے صاحب ، پیاسے ہیں ! ازل کے کاٹے کو پیار کا پیاسا ہی کہیں گے ناں ! جو شبِ الاست میں آپ سے چپکے میں کر بیٹھے تھے ! اُسی وعدے کا پیاسا ہوں صاحب ! پِیاؔ کا پیاسا ، آپ کا سا، آشا ہی آشا! اب کے قریہ میں ہوں بکر عید ہے ، باجی بؔے بی کے گھر بیٹھا ہوں ، آواز دی آشی !! آشی!!!! آو، صاحب کو امتحان کا نتیجہ دِکھاو! جی صاحب! ہم رزلٹ کارڈ دیکھے تو نام “عائشہ” تھا! ہم سمجھے نہیں کہ آواز اہم تھی یا نام اہم تھا، اسم اور مسمیٰ میں مناسبت کیوں کر ہو سکتی تھی!
پروفیسر احمد رفیقؔ فرمانے لگے کہ علم الاسما میں قبولیت حروف کو ہے ! ہم کہے کہ حروف بے آواز ہوں تو مسیحائی کون کرے گا؟ گنگ زبانیں اور غن ناک ، کیا کوئی نغمہ گنگنا سکیں گے؟ وہ بگڑی بانسریا جو دُبر سے حلق تک اور ناک کے نتھنوں سے کوئی پھنکارتا ہے ، وہ پھنکار کیا تھی صاحب!؟ اُسے کیسے لکھنا تھا صاحب؟ تہجیٰ کس کے ہوں گے، دیوناگری کے؟ فارسی کے ، یا رومی پارسی؟ اوّل تہجی پر فیصلہ ہو جائے ، رسم الخط کی بحث بعد میں ہو گی۔ ہم لپکے کہا کیا لکھاری کے ہاتھ، اُنگلیاں اور قصد و قیاس بھی شامل ِ حال نہیں ہو گا؟ آپ سمجھ گئے کہ ایک ہی لفظ کی املا بھی سب پر پوری نہیں اترتی! کیا ہے کہ آوازیں ہیں اور اُن پر اترنے والی خاموشیاں بھی ، جی ساتھ ہی تھیں ، ساتھ ہی ہیں ! اب کہ خاموش ہیں ! آپ کہنے لگے کہ آپ لکھاری ٹھہرے، خود کو نالائق بھی کہے ، کیا ہے کہ لکھاری اور نالائق میں بھی لام ہے ! ہم کہے ساتھ بلاشبہ ہے ، لیکن لام ”ڈالر “ والا ہے ! جی صاحب ! ڈالر کا لام لمبا ہے ! ضرور نام کا کمال ہے !
ہم کہے کہ وطن عزیز کی کرنسی کے نام میں ہی کوئی مسئلہ ہے ! آپ کہے “روپیہ” ہے ! ہم کہے حضور، نام رکھنے والوں نے اردو میں تھوڑا ہی رکھا تھا! اُنہوں نے تو پنجابی میں کہا “رَو پیا ائے “ آپ جلدی میں لکھ دِیے ، رُوپیہ، ہے!؟!!! تو صاحب ، ہم کہے کہ روپے کو ڈالر کہنے سے ، کیا وہ ڈالر ہو جائے گا؟ آشی ، آشا، جلدی آجا! ہم سمجھ گئے کہ کاف لام میں سے جب بھی چُنو، لام چُنو! لام لکھاری خاموشی بیچتا ہے ! منڈی میں مَندا چل رہا ہے ! بِکر کی بکری ہو رہی ہے ! دو نمبر، چار نمبر، پانچ نمبر بھی ، سمال، لارج اور ایکسٹرا لارج میں مل رہا ہے ! ایکس ایل میں بھی ایل ہے تو ہو! ہمیں تو لکھنے سے کام ہے ! خاموشی خریدو، ڈالر دے دو! کاف اور گاف لے کر کوئی لام دے دو!