کیا ہے کہ چ کا ذکر جب بھی ہوگا، پہلے بلاوؔل چ کا ہی نام آئے گا۔ موصوف ہمارے کالج فیلو تھے ! سوشل میڈیا کا دور دورہ تھا، سب ہی پروفائل بنا رہے تھے۔ موصوف کا نام ، بلاؔول، تھا۔ چ بھی لکھتے تھے صاحب، چ Ch= ! جب بھی اُنہیں اپنا تعارف کروانا ہوتا ، کہتے ہم بلاول ہیں۔ ہم تُرنت کہتے بلاول تو ہیں، ہم چ بھی ہیں ! جی صاحب ، چ مطلب چودھری ! خیر ہم تو چود کا معنیٰ ہی چہار سمجھتے تھے ! اور رہی بات ھری کی، تو ہرَی نے ہر ہر کو ہرا کیا تھا، اُسی ہرے، نیلے ، پیلے اور کالے میں کہیں کہیں ایک دو چ بھی مل جاتے ہیں !
ہائے صاحب! چ چوکا، اور چ ہی چُوکا! کرکٹ کا چوکا، اور چ کا چُوکا! خدا نہ کرے ہم چُوکے ہوں ! ہم تو چ سے چھکّے ہی بھلے تھے ! جی صاحب اب کہ خالہ کوثر کے یہاں مکان پر ہیں۔ اُن کی پانچ بیٹیوں کے ساتھ لُڈو کھیل رہے ہیں ۔ آپ چُپکے سے کان میں کہے کہ پانچ میں بھی چ ہے اور ہر کھیل میں کاف بھی ہوتا ہے۔ مگر ہم تب تک تہجی بُوجھ چکے تھے صاحب! لُڈو کھیلی جا رہی ہے کیا ہے کہ ہماری باری ہے! ہم گوٹی پکڑے دعا مانگے ہیں ! جی صاحب ! اتنے میں پروفیسر احمد رفؔیق فرمانے لگے کہ ولایت کے درجات ، دعا کی قبولیت پر منحصر ہیں ! جو دو دن کا ولی ہے تو کوئی چالیس کا غوث! دعا کی قبولیت کو معیار بنانے والے یہ بھول گئے کہ زمان و مکان میں کسی شئے کا ہو جانا، کوئی اچنبھا نہیں ہے ! کیا ہوا جو بجلی ہے مگر کھمبا نہیں ہے! آپ نے گرہ لگائی۔ ہم نے جھٹ کہا، کہ کھمبا بھی کاف سے ہی ہے ! جی صاحب کھمبے تھے ، کاف کھمبے ! یہاں وہاں ، تاحدِ نظر ، کھمبے ہی کھمبے ، کوّے ہی کوّے ! کاف ہی کاف ! اب کہ چار برس کے ہیں ! چ کھمبے دیکھ رہے ہیں !! اُن پر سے گزرتی ہوئی سینکڑوں تاریں ! کیسا چ منظر تھا صاحب ! ہم نے دیکھا اور کہا ، چہ؟ جی صاحب ، چہ نہ دارد! !
دعا مانگے تھے کہ ہمارا چھِکّا لگ جائے ! لگ گیا صاحب ! چھڑے ہی رہے، چھٹے ہی رہے ! ہمارا چھکا ّ ہی لگا ، اور لگا بھی چ سے ! ” چھکا“ تو پورے پاکستان کا لگا ہوا تھا، لگایا ہی جا رہا تھا! ایوانوں میں بھی چھکے لگ رہے تھے، چھکے ہی آئے ہوئے تھے ! کسی کا دو آیا، کسی کا تین آیا، لیکن دو تین کے بعد چ ہی تھا.. چ ہی تھے ! چوکا ، چھکا! واہ صاحب ! اب کے حویلی میں ہیں کیا دیکھتے ہیں کہ کاف کھلاڑی آئے ہیں ، کزن ہیں ! پوچھا کیا کھیلتے ہو؟ کہنے لگے ”چِڑی چھِکا “بیڈ مِنٹن تھی صاحب ! وہ ”چ“ سے کھیل رہے تھے ! ہم چ سے دیکھ رہے تھے ! چ ! فرمایا بابا جؔی نے ، لکھا ابن الؔعربی نے، کہ پروردگارِ عالم نے پہلے”الف“ کو پیدا فرمایا ، اُس پر تجلیِ فرمائی تو لرز کر گر پڑا، یوں حرفِ بٰ کی تخلیق فرمائی، ہم سمجھ گئے کہ ”چ“ کی تخلیق میں کتنی مدت درکار ہوئی ہو گی! کیا ہے کہ عربی میں ”چ” ہے ہی نہیں ! قلت تھی صاحب ! زَبان تھی، آواز نہیں تھی! حلق تھا، کوّا نہیں تھا! جو آواز سنی نہ گئی اُس کے ہونے نہ ہونے کا کیا اندیشہ کیسا سُود ! اندیشہ تو اندیش کو ہوگا، دَرویش کو نہیں ! درویش کا کسی چ سے کیا لینا دینا !