Skip to content

نشست 20.9: علم و عرفان

تو بس صاحب! ہم سمجھ گئے ! کہ علم ہے تو عرفان بھی ہوگا! تو بس صاحب علم و عرفان کی خاطر نکلے تھے اور بھٹکتے ہوئے لاہور اردو بازار میں علم و عرفان پبلشر پہنچ گئے ! جی صاحب جانتے تھے کہ غلط پتہ ہے! ایڈریس تھا ہی نہیں! ایڈریس کیا ہی نہیں تھا! کسی نے بھی ، کسی کو! سب اپنے اپنے واقعات کی نمود کرتے ہوئے پتنگے تھے ! یہاں وہاں اُڑ رہے تھے ! جی صاحب ! کیا کہیں اب کہاں جائیں ! جس کو آہ و بکا کرنے کو ” اردو“ مل جائے اُس کی کوئی مشکل تو حل ہوئی! بفضلِ خدا کیا اللہ ماروں کی زبان ہے ! آپ بگڑے کہ زبان تو ہے ، مگر اردو نہیں ہے، ہندی ہے! وہاں سے آواز آئی کہ ہندی نہیں ڈوگری ہے، پُوربی ہے ، دَکنی ہے ، کہیں سے کوئی بولا زبانِ معلیٰ ہے !

اِس مارا پیٹی میں ہم اتنا تو سمجھ گئے تھے صاحب کہ زبان ہے، مگر” نام“ نہیں ہے ! جی صاحب! کیسے اللہ ماروں کی بولی ہے کہ بولی ہے بھی اور نہیں بھی ! کوئی بولا اُردو ہے ! اُرد ہے، نہ بُرد ہے ! آپ کہنے لگے باران و بَرد ہے ! ہم جھُولے کہا، عالیٰ جناب درد ہے ! جی صاحب ، دنیا کی آبادی کے لحاظ سے تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ! اور زبان کا نام ہی نہیں ہے! جی صاحب! آپ پڑھ کر کہنے لگے کہ زُبان اور زَبان کا فرق ہے! ہم بولے کہ نام تھا ہی نہیں ! آہیں تھیں، جو بھرتا گیا وہ اُردو بولتا رہا! کیا دیکھتا ہوں کہ غریب اور مسکین ہیں ، یتیم و لاوارث ہجوم ! ہجوم ہی ہجوم! جو سسک رہے ہیں ! کراہ رہے ہیں ! ہم پوچھے ، اَجی کچھ کہتے ہیں ؟ وہ اُردو بولنے لگے صاحب ! تیسری زَبان ہے اور اعراب و لہجہ ، مقام و مرتبہ اور علم و عرفان میں کیوں کر نہ بولی جاوے! بھُل نہ جاوے ! آوے ہی آوے ! جاوے ہی جاوے!!!!

جی بولی تو جاوے گی! بولی جا رہی ہے ! آپ نے ارشاد کیا۔ ہم نے وہیں اُچکا کہ صاحب ، دیکھیےگا، ابھی اپنے یہی دو جملے لے لیجیے ، بولی تو جاوے گی، بولی جا رہی ہے ! ہم گلط سمجھ بیٹھے تھے صاحب! کہ آپ کا کہا ہم تک ” لکھے“ میں پہنچا ہے .. جی صاحب ! جیسے ہمارا لکھا آپ تک لکھے میں ہی پہنچ ر ہا ہے ! کیا ہے کہ زُبان حلق میں کانٹا ہے اور چاروں اَور سناٹا ہے ! ایسے سناٹے میں کانٹے کا کٹنا کیا معنی! مطلب ، سناٹے میں دو چار کانٹے تو ہوتے ہی ہیں !! آپ نے سجھ لیا کہ کانٹے میں بھی کاٹے کا کاف ہے ! خیر وہ تو اب رہے گا ہی ، کاف کا کاٹا لکھاری ! تو ہم عرض کر رہے تھے کہ آپ کا کہا، مطلب جو بھی آپ نے کہا، کہنا چاہا ، وہ ہم تک لکھے میں ہی پہنچا ہے ، الف کے لکھے میں ، اَلاَست کے لکھے میں ، ہم پڑھ نہ سکے صاحب ! اب کہ مینار والی مؔسجد میں جاتا ہوں ، نوخیز ہوں، کیا دیکھتا ہوں ایک بچہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا، بیڑیاں ہاتھوں، پیروں میں ..

قاری صاحب کہنے لگے کہ اِسے پڑھنا نہیں آتا!! ہائے صاحب ! کیسا جی دھڑکا تھا میرا، لپک کر کہا کہ آپ کو لکھنا آتا تو اُسے پڑھنا آتا!! ابا میاں نے کہا کہ اب آپ بھی سنائیں !! سورة الکوثر سُنا کر جان بخشی کروائی ! ہائے .. کیا ہے کہ “کوثر” ہے ، کیا ہے کہ کثرت ہے ! جی صاحب ، کوثر نامی ہر خاتون کو بھی کثرت ملتی دیکھی ہے ! آپ سمجھ گئے کہ کوثر میں بھی کاف ہی ہے ، کاف ہے تو الطاف بھی ہوتا ہوگا؟ نہیں صاحب ، انکل الطاف فوت ہو چکے ہیں ! الطاف اور کاف میں مطابقت مشاہدے میں نہیں آئی ، الطاف کو اُلفت نہیں ملی تھیں! خدا درجات بلند فرمائے ، ہمیشہ خالہ کوثر کو،” اوئے بھینس “کہہ کر مخاطب فرماتے تھے ! بہ خدا اُس دن سے کوثر اور بھینس میں کہیں ہم اٹک گئے ہیں ! شاداب فصلوں میں چرتی ایک چمکتی کلوٹی بھینس ! بھینس ہے کہ خالہ ہے ! اِسم کہاں ہے ، مسمیٰ موجود ہے ! ظاہر ہے بھینس ہے ! توبہ صاحب! آپ فرمائے کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں ، جی صاحب ! بہنیں ہی بہنیں ، بھائی ہی بھائی ! زبانیں ہی زبانیں، گُردے کپورے ، نان پٹھورے ! کون جاوے کون کھاوے ! فرمایا علم سفر میں ہے اور عرفان بھوک میں ہے ! بھوکا عرفان! خدا کی پناہ، اب کہ تازہ تازہ مشرف صاحب کا مارشلا لگا ہے ، خود کو کوثر کالونی میں پاتا ہوں ، دو دو کاف، لاحق تھے ، اُن میں میاں اسلم کا بڑا بیٹا! آو بیٹا، مہمانوں کو سلام کرو! یہ ہے عرفان! عرفان کا کاف اور مُنی باجی کے آم کا واقعہ آئندہ نشستوں میں لکھیں گے !

آج کے لیے اتنا ہی ! کاف حافظ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے