جی صاحب! کافکائی انتظار تھے، پیش رَو تھے، رُو بہ رُو بھی! جی صاحب رُو بہ رو بھی! خیر روبرو! کی بات پھر ہو گی، ابھی یہی کہتے ہیں کہ روبرو بھی ہمیں، رو بھئی رو ہی لگا تھا! جی صاحب ! سبب یہی ہے کہ انتظار ہے ! کافکائی راستوں پر انتظار بھی کافکائی تھا، کافکائی ہی تھا! آپ سمجھ گئے کہ بات میں ضرور کوئی کاف ہے ! جی صاحب ! ایک برخوردار نے ہمارا مضمون “کاف چہرے” پڑھا، جی بہت شاد ہوا! جی صاحب ! شادی تو سب کی ہوتی ہے لیکن مَن کا شاد کوئی کوئی ہوتا ہے !
آپ اِس پر ہی بگڑ گئے کہ بھئی ، مَن شاد نہیں “دِلشاد” ہوتا ہے ! الفاظ کے قبیلوں کو آپس میں مت گھساو! ہائے ! ہم گھساو، کا معنی کچھ اور سمجھ بیٹھے تھے صاحب! آپ نے کہا “مت گھساو” ہم سمجھے کہ فرمائے ہیں ، مَت ، گھساو!!!! ہم گلتی سے گھسا بیٹھے! جی صاحب!
خیر صاحب! دلشاد بھی ٹھیک ہی ہو گا! ملا تھا ہمیں ، کہنے لگا دلشاد ہوں! اُزبک ؔ تھا صاحب! فارسی اور اُزبکی بولتا تھا، روسی اور زبان ِ ترکیہ بھی جانتا تھا! پانچ برس تک علومِ اسلامیہ پڑھتا رہا ، جی صاحب! کرتا بھی رہا! کرتا وہ تھا صاحب! ہم تو صرف کراہتے ہیں ، ہم سراہتے ہیں ! کہتا تھا کہ وہ شاد ہے ! پانچ برس پڑھنے کے بعد سن دو ہزار پندرہ کے مارشل لا میں گونل جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ڈر کے مارے واپس نہ آیا! وہیں شادی کر کے شاد ہو بیٹھا! آج کل کھڑکیاں دروازے لگاتا ہے دو بچوں کا باپ ہے ! کیا شاد ہے؟ نہیں جانتا صاحب! خیر خدا جانے کہاں سے دلشاد ٹپک پڑا! صاحب کیا ہے کہ جن و ملائک میں الفاظ کو مجسم پاتا ہوں ، اب کہ معبدِ اعظم میں ہوں ، کیا ہے کہ بت ہیں !
جی صاحب صنم اصنام! نام ہی نام! چلتے پھرتے بت! محرّک صورتیں! متّحرک اجسام! کیا ہے کہ کھلونے ہیں ، کیا ہے کہ پیارے ہیں ! جی صاحب ! اب آپ یہ مت کہیے گا کہ کھلونوں میں بھی “کاف” ہی ہے ! وہ تو ہے اور رہے گا! آپ نے آنکھ ماری کہ “رہے گا” میں بھی تو گاف ہی ہے ! تو صاحب ہم کہیں گے کہ کاف اور گاف کی ہی وجہ سے تو معاملہ اُلجھا ہوا ہے ! نہ کاف ہوتا نہ ہی گاف ہوتی! آپ کہیں گے کہ کاف ، “ہوتا” ہے ، تو “گاف “ کو بھی ہونا ہی ہوگا! ہم کہتے ہیں کہ گا، کو ، گی ، نہیں کہے! ہم تو کسی کو بھی کچھ نہیں کہے ! ہم تو صرف دیکھتے ہیں !
جی صاحب ! صنم و اصنام، اجسام ہی اجسام، جن کے مابین ، آم ہی آم! اب آپ کہیے ، آم! جی صاحب ! مرزا ؔ کے پسندیدہ تھے! پروردگارِ عالم نے ہمارے جی میں بھی انواع و اقسام کے آم ہی تجویز کیے تھے ! اوّل بہاروں میں ملکِ ترکیہ میں ہیں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مارکیٹ کے ایک چھوٹے سے ٹوکرے پر “مینگو” لکھا ہے ! ہم نے دیکھا برازیل کے آم تھے! مینگو ہمارے یہاں لاہور میں ، مردانہ عضو کے لیے بھی کہا جاتا رہا ہے ! آوز آئی ، مینگو ، لینا ہے! ؟ دوست نے پوچھا! ہم غلط سمجھے صاحب! کہا نہیں نہیں “مینگو” نہیں آم لینا ہے! اُس نے لپکا کہا “آم” یہاں برزبانِ ترکیہ عورت کی جائے مخصوصہ کو کہتے ہیں ! آم “لینا” نہیں لینی ہوتی ہے !! ہم لرّز کر رہ گئے صاحب! کیا ہے کہ حروف ہیں ، کیا ہے کہ معنیٰ ہیں ! اور اُن الفاظ کے اجسام ہیں کہ متحرک ہیں ! صاحبِ بصیرت سوچتا ہے کہ “معاملہ” کیا ہے ؟ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ جو آواز کو اُس کی سَمت سے سماعت بھی کرے سماپت بھی کرے وہی سنکی سَنت ہے!
خیر، بات ہو رہی تھی کافکائی انتظار کی ! توبہ صاحب! اِن تے زار کی! زار ہی زار کی! زاروزار کی! ذرّہ ذرّے کی ! یہی سوچ رہا تھا کہ چچا جان یاد آئے ! فرمایا ، باسط صاحب! وحدت کے سِوا کوئی چارہ نہیں ہے ! چارہ ہی نہیں ہے ! جی صاحب ! کیا دیکھتے ہیں کہ اُسی قریہ میں موجود ہیں ! کھیت کھلیان میں بے کار بیٹھے تھے! سامنے سے اِک شخص آ رہا تھا! بتایا گیا کہ “انتظار” آ رہا ہے ! آپ کا تھا ، انتظار! ہم نے فوراً کہا، آنے دو!
آ گیا صاحب! آج انتظار بھی آ گیا! انتظار تھا، چارہ نہیں تھا! جی صاحب! پوچھا کیا مانگتے ہو، کہنے لگا چارہ ہے؟ چارہ نہیں تھا، بے چارے کے پاس! بے چار ، لاچار کے پاس چلا آیا صاحب! لا چار ، بے چار کو کیا دے سکتا ہے صاحب! بے چار اور لا چار دونوں، دوچار ہو بیٹھے ہیں! کیا ہو سکتا ہے ؟ چار و بے چار کی گتھم گتھی میں لاچار کھڑا ہے، سامنے انتظار کھڑا ہے ! چار تب بھی نہیں تھا، چارہ اب بھی نہیں ہے ! انتظار البتہ موجود ہے ! آپ کا ہے تو ہم نے بیٹھا لیا! اب کے بیٹھے ہیں، تھک گئے ہیں !
جؔون صاحب فرمانے لگے،
؎ ائے شخص تیری تلاش سے میں
ہارا نہیں ہوں تھک گیا ہوں !
وہ شخصِ انتظار، جسے جوؔن صاحب تلاشتے تھے ، ہمارے پاس بیٹھا ہے، جی صاحب وہ بے چار ، انتظار، ہے ! ہم تھکے نہیں تھے ، ہارتے کیسے ! لیکن کیا ہے کہ انتظار کے ساتھ بیٹھے ہیں ! بے چارگی میں ! ہم اور انتظار ! آپ سمجھ گئے کہ تھکنے میں کاف ہے تو بے چارگی میں گاف کا ہونا لازمی بات ہے! آج کاف گاف میسر نہیں ہیں ! آج صرف ق سے کام چلا یا جائے ! آپ کہے کہ ، کام نہیں ، قام، چلایا جائے ! اَقامہ لیا جائے ! قیامت سے پہلے! آپ سوچنے لگے کہ کیا کہتے ہیں ! اِن جملو ں میں کیسا ربط، کاہے کا معنیٰ ، ہم نے کہا خاموش رہو! اِملا ہو رہی ہے! مِس آمنہ، آم ، نہ!!! اِملا کروا رہی ہیں! لکھتے جاو! !