؎ جلوہ بقدرِ ظرفِ نظر دیکھتے رہے !
جی صاحب دیکھتے رہے ہیں، دیکھ ہی رہے ہیں ! کیا ہے کہ جلوے ہیں، کیا ہے کہ جَلو ہیں، مجلّات و محلات میں مجمل نہ ہو سکے! تجمل کہاں سے آتا! جب تجمل نہ تھا تو تحمل کیسے آتا! نہ تحمل آیا نہ اطمینان! کیا ہے کہ جلوے ہیں! کیا ہے کہ حلوے ہیں! آپ نے تان چھیڑی کہا، حلوے کے ہی جلوے ہیں ! جی صاحب جلوے ہی جلوے ! حلوے ہی حلوے ! اب کہ خود کو قبلہ نُوری بُوری سرکار کی آخری رسومات میں پاتا ہوں ! فرمایا
؎ جلوہِ دلدار میرے دل میں ہے
آپ سمجھ گئے کہ نُوری اور بُوری میں بھی نقطے کا ہیر پھیر ہے اور یہی معاملہ جلوہ اور حلوہ میں ہے ! تو ہم نے کہا صاحب ، دلدار اور دیدار میں بھی نقطے کا پانسہ تھا، پلٹ دیا صاحب!
اب دل جلے یا دار ہو ! آپ جھُومے فرمایا ، جو بھی ہو، دیدار ہو! جی صاحب اب کہ خود کو بابا دیدار شاہ صاحب کے مزارِ اقدس پر پاتا ہوں! جی صاحب کیا ہے کہ مزار ہے ! کیا ہے کہ زار ہے ! آپ سمجھ گئے کہ زار اور راز میں بھی نقطہ ہی کار فرما ہے ! ہم زار زار رونے لگے ! آپ پوچھے کیوں روتے ہو! ہم نے کہا مزار ہے ، مزارِ یار ہے ! اور آنا ایک ہی بار ہے ! ہم نے کہا ، ایک بار ہے ! جی صاحب ، بار ہے ! آپ پوچھے کہ فارسی والا کہ انگریزی والا! ہم نے کہا کہ دونو کی “والے “ ہیں ! والیاں نہیں ہیں ! جی صاحب، والی ، تھا ہی نہیں ! والیاں بھی نہیں تھیں ! صرف قوّالیاں تھیں ! ہو رہی تھی! کی جا رہی تھی ! ہم کو نقطے چبھ رہے تھے ! جی صاحب! آپ کے تین اور تم کے دو! دو نقطوں سے کم تو کوئی تم بھی نہیں تھا!
؎ کیوں کسی کے حُسن کی پُوجا کروں
حُسن کی گلزار میرے دل میں ہے
زمزمے ، نغمے کہیں آہ و فغاں
عشق کا بازار میرے دل میں ہے
فرش سے تا عرش موجودات کا
سارا کاروبار میرے دل میں ہے
میں کسی کو ڈھونڈھنے جاوں کہاں
حضرتِ انوار میرے دل میں ہے
جی صاحب ! آپ دل میں تھے ، دیدار دل میں ہی ہوا! دل تھا کہ دِلّی تھی! کہ خسروؔ ہوں یا ہو غالب! ہمیں بھی دَنی، دُنیا میں ملے ! دِلی میں ملے ! دِ ل میں ملے !
آتا ہے تو آئے نہیں آتا نہ آئے
جیتا ہے یا مرتا ہے کوئی میری بلا سے
اِک ذات ہے موجود کوئی غیر نہیں ہے
کیا کام مجھے اپنی فنا اور بقا سے
ہو جائے گی اُس وقت میری موت یقیناً
جب اُس نے ذرا ہاتھ لیا کھینچ جفا سے