Skip to content

نشست 20.6: گال گوئیا ہو جائے گا!

حسن بن صباؔح کے مصاحبین میں سے ہوتے تو بہ خدا خود کو فدائی پاتے .. پروردگارِ عالم نے انبوہ اَنبار نباتات پیدا فرمائی ہیں ، اُن کے مراتب و محاسن بھی رکھے، ہر شے کے جوڑے بنائے، مثبت اور منفی جیسے ایک دوسرے سے، ایک دوسرے میں ، قائم جوڑے تخلیق فرمائے .. کیا ہے کہ جوڑے ہیں !

جی صاحب! آپ سے ماتھا پھوڑے ہیں ! کہے تھے ناں، گال گوئیا ہو جائے گا! ہو گیا ہے صاحب! جی صاحب گوئیا ، گویا ، گیاؔ سے آیا ہے ، ساتھ میں کوئی سُر سرگم نہیں ہے ! بس خاموشی ہے! جی صاحب ! گوتم کی خامشی بھی “گ” سے ہی ہے !

گوئیے نے گ کی تان چھیڑی ! ہم نے لقمہ دیا! کہ گھیان بھی گوتم کو گیاؔ میں گُپت ہوا تھا ! آپ گویا ہوئے ! ہم نے لپکا کہ گویا ہوئے ہیں! آپ گُھورے فرمایا “ لقمہ “ بھی “قاف” سے ہی ہے ! ہم سمجھ گئے کہ آج کیا بات ہو گی! جی صاحب ! آج جینڈر کی بات ہو گی! آپ نے فرمایا کہ بہت خوب! جینڈر بھی گاف سے ہی ہے ! ہم نے کہا جی صاحب ! “گاف” سے ہی ہے ! آپ سمجھے کہا “اُف” ہم نے کہا عالی جناب ! اُف بھی “گاف” سے ہی ہے !!! جی صاحب ! گاف سے ہی ہے ! گاف گلگت کا بھی گاف ہی بنا ہوا ہے ! آپ جُھومے کہا! گاف ہے تو “لام” بھی ہوتا ہو گا ! ہم نے عرض کی کہا، لام بھی ہے اور لام بھی پاکستان کا ہے ! کہا پاکستان میں “کاف” ہے! جی ہم نے کہا، گاف ہے لیکن اُس میں “لام” بھی ہے ! جی صاحب ! لام ہے ! لالَہ لال رام ہے ! ہائے صاحب ! کیا کہیں کہ اِن حروف میں کیسی طوفانِ بد تمیزی و تہذیبی مچا رکھی ہے ! گاف ، خاموشی ہے ، لے لیجیے ! ح سے محفوظ کروں یا کاف سے پَیک کر دوں ! جی صاحب ! کیا ہے کہ “نورانی قائدہ” سامنے ہے ، تختی پر گاچی لگا کر ٹاٹ پر بیٹھے ہیں ! جی صاحب ! ٹاٹ پر ہی بیٹھے ہیں ! ٹاٹ پر ٹاٹ کے ہی پیوند تھے صاحب ! کمخواب نہیں ، کمخوابی ملی صاحب ! کم خوابی، کم خرابی ملی ! جی صاحب! آپ کم! کہے ، ہم کم کم کرتے گئے ! جی صاحب کاف سے کم کرتے گئے صاحب ! حرف لکھ رہے ہیں ، مِس آمنہ نے کہا دیکھ کر لکھو! جی صاحب ، فرمایا دیکھ کر لکھو! ہم دیکھنے لگے صاحب ! دیکھتے ہی رہے ہیں صاحب ! حروف کی بٰ تٰ کا تماشہ بپا تھا! پوچھا خود کہاں تھے؟ ہم بولے آپ کے حروف میں فرداً فردا سب سے جدا تھے !

جی صاحب ! خاموش تھے !

خیر، خاموش ہیں کہ جوڑے ہیں ! جی صاحب ہم بھی جوڑا لگا بیٹھے ہیں ! آپ سے ماتھا پھوڑ بیٹھے ہیں ! اب کہ خود کو مفکرین کی منڈی میں پاتے ہیں اور گھُورتے ہیں ، جی صاحب گاف سے گھورتے ہیں ! کہ یہ کیا تماشا بپا ہے ! یہ کیا ہو رہا ہے ! جی صاحب ، جی بی ، کا ، بی سی ہوا ہوا ہے ! جی صاحب! جی (G)بھی گاف سے ہی ہے ! اور گاڑی بھی گاف سے ہی ہے ! جس کے پاس گاف ہے اُس کے پاس گاڑی ہے! اور تو اور آپ سمجھ گئے کہ گھر ، گاڑی اور گوری بھی گاف سے ہی ہے! اللہ کی امان! آج سے گاف گاڑی نہیں مانگتے !

اتنے میں مرزا ؔ کہنے لگے !

؎ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو بس عاشق ہیں تمہارے نام کے

جی صاحب! ہم بھی خط لکھتے رہے! آپ نے کہا کہ “گرچہ” میں بھی گاف ہی ہے اور غالب بھی گاف سے ہی ہے ! کیا ہے کہ مغربی لہجوں میں “جی” اور “گی” بگڑ گئے ہیں ایک دوسرے کے گاف میں گھس گئے ہیں ! جی صاحب اگر “کاف ” چہرے ہو سکتے ہیں تو کاف گاف کیوں نہیں ہو سکتے ! ہو گئے صاحب ! گاف سے ہو گئے ! گاف کے ہو گئے ! اب آپ گھُورے کہ کیا گاف گاف لگا رکھی ہے ! کوئی خوبصورت بات کرو! جس کا کوئی مطلب ہو! کوئی معنی ہو! معنی ٰ نہیں تھا صاحب ! لفظ ہی لفظ تھے ! کاف چہروں سے اُبھرے گاف لفظ ! جی صاحب ! ہجے، جی صاحب ، خط! مِس آمنہ نے کہا “خوش خطی” سیکھو! مجھے دیکھو، میں کیسے لکھتی ہوں! کیا ہے کہ قاف قلم ہے! خوش خطی ہے! لیکن خاموشی ، اور خوش خاموشی کا کوئی تذکرہ نہیں تھا! ہم لے آئے صاحب ! “مجھے دیکھو، !، میں کیسے لکھتی ہوں! ہم استہزا میں سمجھے ! دیکھتے رہے ! خاموش دیکھتے رہے، خوش خاموشی سے ! وہی خاموشی لے لیجیے ! کاف چہرے اور گاف لفظ رہنے دیجیے گندے ہیں ، گاف گیدڑ ہے ! شہر کو دوڑتا ہے ! اب کے ہم جو دیکھے تھے وہ لکھا کیے ! کہا لکھو کشتی! ہم اُوپر زبر کھینچ دیے تھے صاحب ! جی صاحب گلتی سے !! پھر ہوا گال گوئیا! پھر ہوئی مارا پیٹی ہے ۔گاف کو صحیح کرو! بے شرم ہے ! بے شک پرودگار نے ہر چیز کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں ! کاف اور گاف ! ہم مذکر لکھتے رہے آپ مونث سمجھتے رہے ! لیکن کیا ہے کہ جوڑے ہیں کیا ہے کہ دیکھتے ہیں !

جواب دیں