؎ ائے چہرہ ائی زیبائے تُو، رشکِ بُتانِ آذری
چہرہ ہے صاحب! کتاب ہی ہے! اور کتاب بھی ایسی کہ لکھے جا رہی ہو، لکھوائی جا رہی ہے! “ڈِکٹیشن” ہو رہی ہے! جی صاحب! اِملا کا امتحان تھا! ہم باجی نگینہ کے یہاں ٹویشن بیٹھے ہیں، کیا ہے کہ اِمّلا کی مشّق کروائی جائے گی! ہم نے شاز و ناز کو شہناز نہ لکھا صاحب! اور شہناز کو شہباز بھی نہ لکھا! کیا ہے کہ آوازیں ہیں، کیا ہے کہ چہرے ہیں! جی صاحب! آج چہروں کی بِکری ہے! آج چہرے” ڈِسپلے“ پر ہیں! اُتاریے ، نیا پہنیے ، لیتے جائیے ، آپ پر سُوٹ کرتا ہے! چہرہ سا چہرہ تھا صاحب! کورا چہرہ! تجریدی چہرہ! جس پر سب کچھ نظر آنے لگتا ہے، آنکھ چہرہ دیکھتی ہے اور ساتھ ہی اُس کی عکسی نقل بنا لیتی ہے، اُس میں اُس مقام، مَحل اور منسب و مرتبہ سبھی محفوظ ہو جاتا ہے ! کیا ہے کہ آئنے ہیں، کیا ہے کہ چہرے ہیں! اِملا کے چہرے ، آوازوں کی صورتیں!
جی صاحب باجی نگینہ نے اِملا کروائی ہم عمل کرنے لگے!
جی صاحب، امل، عمل، عنبر جو کوئی بھی ملا یا ملی، ہم نے آم امبھی، اِملی اور امبلی میں تفریق جان رکھی۔ کیا ہے کہ رات کی ہی واردات تھی، ہم نے ایک ایک لمحہ میں جہانِ دِیگر دیکھا کیے کہ دگرگوں ہو گئے، گُوں مگوں ہو گئے.. کیا ہے کہ غنہ ہے، کیا ہے کہ ناغہ ہے!!! نغ غن، سے غم ہے تو غِنا بھی تو ہے، غِنا ہے تو نعمتِ مغنیہ بھی .. کیا ہے کہ غُن ہے کیا ہے کہ تان ہے!
کیا ہے کہ ہم سب کا پاکستان ہے ! ہائے کیا ہے کہ مغنیہ ترانہ پڑھنے لگتی ہے !! جی صاحب چودہ اگست کا مبارک دن ہے اور بھرن برسات ہونے کو ہے ، کیا ہے کہ تلاوت ہے ، نعت ہے اور سب سے بڑھ کر ترانہ ہے صاحب! جی صاحب کہا لکھو “ترانہ” بخدا صاحب کوئی “پروانہ” لکھ بیٹھا ہے کوئی “نظرانہ” اور کوئی شرمانا، بہکانا تو صاحب ہم نے آپ کا مستانہ لکھا ! جی صاحب ترانے، تَر آنے اور اِتراتے ہوئے اِدھر آنے کے بارے بھی بتا چکے ہیں!
سب لفظوں کا پھیر ہے سب رات کی کرشمہ گری ہے .. کیا ہے کہ شام و سحر کے بین بین ہیں .. زمستانِ بَؔون میں ایک چہل پہل ہے ، ہم چہکے کہ چنبیلی چٹخی، پہل کرے گی جو سہیلی وہ پہیلی ! جی صاحب پہلی سہیلی اور پہلی پہیلی! جی صاحب! فرمایا اوّل آو! ہم “پہلے” آ گئے صاحب ! کبھی امتحان سے پہلے، کبھی دورانِ امتحان اور کبھی نتیجہ دیکھنے سے “پہلے “ ہی ہم واپس آ گئے صاحب ، “پیچھے” سے پہلے آ گئے تھے ! کوئی نہلے دہلے نہیں تھے پورے پہلے تھے ! سہیلی اور پہیلیوں میں ، پہیلی اور سہیلیوں میں ، آپ کو ڈھونڈا کیے ! ڈھنڈورا کیے ہیں ! کدھر ہیں ، آ جائیے ! بہلا دیجیے ! کہنے لگے پہلے ہاتھ دیجیے ! ہم بولے ، لگے ہاتھ دیجیے !
لیجیے!