صاحب، دعوی ٰ نہیں ہے! ہمرا بس اتنا ہی کہنا ہے کہ ہم نے رات کو اُس کے ہر ہر پہر میں دیکھا ہے، ہم نے صرف دیکھا ہے رات کو، یہ دعویٰ نہیں ہے ۔ پروفیسر احمد رفیق راہِ سلوک میں ہمارے رفیق ہوئے ، فرمایا کہ ہر دعویٰ باطل ہے، صوفی کا کوئی دعوی ٰ نہیں ! جی صاحب! دعویٰ کرے کون؟ کیوں کر کرے؟ جانتا ہے کہ کبیرؔ کہیں گے کہ ؎ کہا کہی جو میں کیا تم ہی تھے مجھ ماہی! جی صاحب کہا کہی، جس کو جو بھی فیڈ کر دیا جائے تو اُس سے سرزد ہونے والا کوئی بھی فعل ایک “سرزدگی” ہی کہلائے گا! یا پھر سر دردی! یا شاید سرگردی! جی صاحب گرمی سردی! جو بھی تھا اُس میں رات قائم تھی ! رات کے سائیوں میں ہم نے خود کو محفوظ جانا اور دن کے اُجالے سے ہمیں کوئی نفرت نہ ہوئی!
نفرت محبت ، کیا ہو، صاحب! روٹی ، کپڑا اور مکان مل جائے تو کافی ہو! فرمانے لگے بلکتے کیوں ہو؟ کیا نہیں ہے تمہارے پاس!؟ ہم لپکے کہ صاحب، آپ ہی نہیں ہیں! رات تو ہے بھرپور اور برابر ہے! لیکن آپ نہیں ہیں؟ کیا آپ واقعی نہیں ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ روز و شب کے آفتاب، یہ ماہ جبیں و ماہ تاب ہیں تو آپ بھی ہوں گے! ہونا ہی ہوگا آپ کو صاحب! قاری نہ ہو تو لکھاری اور اُس کے کردار تنہائی میں چل بسیں گے! جی آپ چل سکیں گے؟
اتنے میں اداؔ جعفری فرمانے لگیں،
؎ بُرے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
تو وہی بات ہے ساتھ کہ دو چار قدم ہم آپ بھی طرف چل لیے تھے اب آپ بھی قدم رَنجہ فرمائیے، پیاؔ کیسرا ہمرے دیس پدھاریے ! دیکھیے ہم بُلاتے ہیں، بلکتے ہیں! فرمایا کہ بلکنا بند کرو اور بولنا شروع کرو! بتاو کہ خاموشی بیچتے ہو! چیخو! کہ ؎ میرے دامن میں شراروں کے سِوا کچھ بھی نہیں ! کچھ تھا ہی نہیں !” نہیں“ کی رات تھی! ” نفی“ کی بات تھی! ذات کی نفی ، دین دھرم سماج کی نفی ! “لا” کی تلوار تھامے جو رات بھر سویا ہی نہیں ! جی صاحب، ہمارا جنم غلط رات میں ہوا تھا یا رات صحیح تھی ہمارا جنم غلط تھا!؟ نہیں جانتے ! آپ کے شاعر جِسے ” شامِ فراق “ کہتے رہے، ہم اُسے ” شبِ وصل“ مناتے ہیں، کیا ہے کہ آپ آتے ہیں!