جی صاحب لکھنا تھا مجھے، چلنا تھا مجھے، تیرنا تھا مجھے .. سمجھنا تھا مجھے وہی حرفِ لن ترانی، وہی سدائے بے آواز، وہی نمازِ بے نیاز! ادا کرنی تھی مجھے! ہونا تھا مجھے! ہوتے چلے جانا تھا مجھے! موسموں کی کروٹوں پہ اُونگھا ضرور تھا، سویا نہیں تھا!نہیں سویا تھا صاحب!جی صاحب! فرمایا ، جو سوتا ہے وہی کھوتا ہے! ہم کو آپ گدھا تو کہے لیکن پیار سے کہے۔ دوسرا، ہم کھوتے نہیں ہیں، اردو والے بھی ، پنجابی والے بھی۔ کیوں کہ کبھی سوئے ہی نہیں تھے، عالمِ بیداری اور عالمِ خواب کے مابین جو ویرانہ ہے ہم نے اُسی کو زمانہ سمجھا، اُسی کو دنیا بھی! اب کہ خود کو منہاج الؔقرآن سینٹر میں پاتے ہیں، قبلہ طاہر القادری صاحب، خطاب فرما رہے ہیں: “دنیا” ، دَنی ہے! یعنی گھٹیا اور ذلیل ہے! ہم نے کہا بہت خوب! ہم فوراً مان گئے ! فرمایا “الرسالہ قشیریہ” سے کہ دنیا ایک بُڑھیا کی مِثل ہے! ہم کو محلہ حاجی پورہ کی ” مائی حَلّو“! یاد آ گئی صاحب! دربار پر پڑی کراہتی رہتی تھی۔ ہم نیاز لے کر گئے اور پوچھا، امّاں کراہتی کاہے ہو؟ کہنے لگی کرّاہتی کہاں ہوں بِروا، سَرّاہتی ہوں ! ہم نے اِس سراہتی کراہتی بُڑھیا کو دیکھا تو بخدا "دنیا” سمجھ گئے صاحب!
برابر دیکھتے ہیں ، اور نہ صرف دیکھتے ہیں بل کہ تولتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں ، کیا ہے کہ خاموش ہیں ! کیا ہے کہ دیکھتے ہیں ! ہستی کی گرہ پر ٹکٹکی باندھنے والا کوئی گھیانی، چَونک سکتا ہے، چُوکتا نہیں ہے! اُونگھتا ہے لیکن سوتا نہیں ہے! فرمایا نیند وضو کو مکّروہ کر دیتی ہے ! اب کے چہرہِ فجر دیکھتے ہیں ! لیکن وضو ہے کہ خطا نہیں ! دھیان ہے کہ قائم ہے! “ٹوائلٹ ٹرینگ” کی جا رہی ہے! جب دھیان اپنی ہوا کے خطا ہونے پر مرکوز ہو جائے تو ایسے شخص سے کیا توقع کی جائے کہ وہ” صراط“ پر چل سکے گا؟ آپ بولے، صراط ہے، لیکن ” مستقیم “بھی تو ہے ! ہم نے عرض کی کہ مستقیم صراط ہے ، بندہ نہیں صاحب! بندہ اونٹ ہے، جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ! فرمایا دیکھو کیسے کوہان ہیں! ہم بولے والی جناب چوہان ہیں! واہ صاحب! راستہ تو صاف اور سیدھا ہے ، لیکن ہم اونٹ ہیں ! بے آب و گیاہ دہر پر سے ڈولتے ، جھومتے گزر رہے ہیں ، جسم کی ناقہ پر سوار برقرار ہے، اور منظر ِ دائمی پر ارتعاش کی شہادت دیکھتا ہے ، افلاک دیکھتا ہے، لکھ رہا ہے !
اب ایسا نالائق لکھاری ، کبھی یہاں کبھی وہاں کیوں کر پایا جاتا ہے، لکھے میں ربط کیوں نہیں ؟ ہم نے عرض کی حضور ، سوار ہیں، اور اونٹ پر ہیں ، منظر پر نظر ٹیکے ہیں ، اب دعا ہو یا دغا، یا ہو کوئی حرفِ خطا، پڑھ لیجیے! آپ کی نظر ہے، صاحب کی نظر ہے!