Skip to content

نشست 20.1: لفظ لفظ کی ذات ہے !

خیل خیال کے کنبے ہیں ! لفظ لفظ کی ذات ہے !

کیا ” سوچ “ اور ” خیال“ میں بھی فرق ہے ! فرمایا: خیال کے بحرِ رواں سے جو تان ہاتھ لگے، وہی سوچ ہے، اِن میں صرف Impact کا فرق ہے ! یعنی خیال سے سوچ کا Impact زیادہ ہے! ہم سوچنے لگے ، ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ سوچ اور خیال ایک ہی بات ہے، یا پھر یہ کہ سوچ فلاں چیز ہے اور خیال فلان! جی صاحب! کچھ بھی ہو سکتا ہے، کچھ تو ہوتا ہی رہا ہے! کیا ہے کہ لغتیں ہیں کیا ہے کہ لعنتیں ہیں! جی صاحب، فیروزؔ سنز کی اردو لغت، وہ پہلا آسیب تھا جو لعنت بن گیا صاحب! لفظ ہے اور لفظ کے سامنے لفظ ہی لفظ ہیں، صاحب! آواز موجود ہی نہیں تھی! تھی ہی نہیں! کورے لفظ اور گُنگ زبانیں ! اِن میں کوئی داستاں کیسے لکھی جاتی؟ نہ پڑھنے والا شاد ہے نہ ہی سننے والا مدہوش! اب اِس پر زبان تو رکھتے ہیں ، مگر آواز نہیں ہے!

جی صاحب ! کوئی بولتا ہی نہیں تھا! اور جو (پنجابی) بولی جاتی تھی صاحب ! وہ لکھی ہی نہیں جاتی ! وہ لکھی جا ہی نہیں سکتی تھی ! جی صاحب، خط کا مسئلہ ! تہجی کا مسئلہ برقرار ہے! لُغت کی لعنت ہے صاحب! نقطوں کا سب ہیر پھیر ہے! اب کہ ہم خود کو ملکاؔنہ دروازہ کے باہر سے گزرتے پاتے ہیں ، بانورے ہیں اور ” خیال“ پر ” سوچ“ رہے ہیں ، اور اِس پر بھی کہ ” کبوتر“ کو ” مرغ“ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ یہ نام سب کس نے رکھے ہیں ؟

جی صاحب پچیس برس بعد امریکہ کے نامور جدّلی فلاسفہ سے محوِ کلام ہیں۔ سوچ رہے ہیں . . . سوال ، ” خیال“ ہی تھا صاحب! خیل خیال کی رَو! سرگرداں و سرمستاں! خیل، اَسپِ ا َمثال ہے! ایسا گھوڑا، جو سرپٹ بھاگتا جائے صاحب! ایسے گھوڑوں کے بیسیوں جنڈھ سب لالہ زاروں میں شاد چرتے ہوں گے، تو کیا ” خیال“ نہیں کہلاوئیں گے!؟ خیال کیا ہے؟ کیا کوئی قاصد ہے؟ کیا کوئی فاسد ہے؟ ہم کہنے لگے کہ تیس برس کی کھوج بتاتی ہے کہ قاصد ہو یا فاسد، اَسپ تو ہے! اور اسپ ہی ہے! جی صاحب! لالہ زاروں میں شاد چرتا کوئی آزاد گھوڑا! کسی سائس کا شائق کیوں کر بنتا؟ کیوں کرتا شوق کہ اُس پر سواری کی جائے، اُسے ناتھ پڑے! سرپٹ دوڑتے گئے صاحب! ہر صیاد اور پیرِ بامراد سے ! کہ خیال ہیں! بلکہ ، کسی کے ہی حُسنِ خیال ہیں! ہمارا بُود نابود سے کیا واسطہ! چرتے ہیں! اور دم بھر سُستا لیتے ہیں! کراہ لیتے ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے