Skip to content

نشست 18: اندھیرا کون خریدتا؟

جی صاحب ، اندھوں کے شہر میں آئنے کبھی بیچا کیے ، کفن قبرستان میں ! اب کہ لفظوں کے بازار میں خاموشی بیچتے ہیں ! جی صاحب، یہی تو مسئلہ ہے کہ خاموشی بیچنے کے لیے بھی آوازیں لگانی پڑ رہی ہیں! رُک جاو، ٹھہر جاو! کہنے کے لیے بھی چِلّانا ہی پڑتا ہے ! جی صاحب ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو خاموش کروانے کو چِلّائی تھیں ، مِس آمنہ! ہم تبھی سمجھ گئے تھے کہ چِلّانا ضروری ہے ، چیخ کافی ہے! ہمری چیخ سلب ہو گئی تھی صاحب! آواز نادارد، ساز نہ دارد! جی صاحب، گویائی ہونے پر بھی غالبؔ کہتے ہیں ؎ کوئی پوچھے کہ ہم بتلاویں کیا! لیکن صاحب! یہاں “دستورِ زباں” بندی ہے، یہاں زبان صرف ترس سکتی ہے اور حلق سِسکتے ہیں!

یہاں پیاس ہی پیاس ہے ! اور پانی ہی پانی ہے ! جی صاحب، پانی پت اُتار دیجیے گا! صاحب! پانی پت کا تذکرہ ابراہیم لودھی اور مغل شاہ کے معرکہ آرا ہونے کا مقام ہے! ہو گا، ہمارے لیے تو قلندر غوث علی شاہ پانی پتی کی نسبت مقصود ہے اور معروف بھی! فرمانے لگے کہ فقیری ایسی شے ہے گویا جو کسی نے کسی کے کان میں کوئی بات کہہ دی! جی صاحب! وہ بات خاموشی ہی تھی! توقف، پاز، سپیس، خالی جگہ، یا حرکت میں کہیں کوئی سکوت، کوئی جائے اماں، کوئی پناہ تھی تو وہ یہی تھی صاحب! اُسی خاموشی کو بیچتے ہیں ! اپنی حالت اُس پاگل کی سی ہو گئی ہے جو قصاب کے پاس جاتا ہے کہتا ہے کہ گوشت ہے؟ قصاب یقیناً پانی پت کا کوئی قلندر ہو گا ، کہنے لگا، آج ناغہ ہے! ہم تُرنت بولے کہ ناغہ ہے تو پھر ناغہ ہی دے دو! جی صاحب وہی ناغہ بیچتے ہیں!

آج ناغہ کی بات ہو گی! آج اُس دورانیے کی بات ہو گی جس میں کوئی الہام، کوئی فرشتہ پیغام نہیں لاتا! اِسی کیفیت کو صوفیا کے یہاں حالتِ قبض کہا جاتا ہے، اُس سکڑتے جکڑے پا بجولاں قیدی کی سی کیفیت میں ہونے کی بات کہ جیسے کوئی قیدی آخری مرتبہ کسی کے قدموں کی چاپ سُنے! جی صاحب! اُسی کا میں چُپ چاپ ، لمحوں کا انتظار کرنا! ایک ایک لمحے میں ہوتے ہوئے ہونے کا مراقبہ کرنا! اپنے آپ پر ایک نظر برقرار رکھنا، اور اُس بننے بگڑنے کے عمل میں ، ہستی اور ریختی کا مشاہدہ کرنا! قابلِ قدر چیز ہے! تو صاحب آج ، چُپ: کسی بات کو کرتے ہوئے کیے جانے والے توقف کو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ، چُپ سادھنا ، اور چیز ہے یعنی اُس دورانیے کو بڑھا لینا، طویل مدت کسی سے اُس کی موجودگی میں بھی ، اُس سے بات چیت نہ کرنا۔

خاموشی اور شئے ہے صاحب! خاموشی کا تعلق موضوع، مقام اور مدت سے کچھ اگلا درجہ ہے صاحب! پھر خاموشی کی بھی اقسام ہیں صاحب! جی صاحب! آئیے آب بھی ، جی ، وہ بھی ! یہ دیکھیے ، خاموشی کی بھی اقسام بنا دی ہیں، لفظ کو خدا کی مار ہو! ہر شے کو بیان کرنا چاہتا ہے، بیانیے کا پجاری ہے! لیکن اپنی ہر ہر آواز کو خاموشی کی بھینٹ چڑھاتا تھا! گاتا تھا، جی ، گیتا گاتا تھا! لیکن ہم نے عرض کی، کہ ہر گائیک ، ہر متکلم ، ہر اسپیکر، آوازوں میں توقف نہ کرے، لب و لہجہ ، معنیٰ کے باہم نہ ہو تو کیا گا سکو گے؟ یعنی، گانے کے لیے بھی، بولنے کی طرح، لکھے کی طرح ایک خالی پن درکار ہے! ایسے ہی اذہان کو، آسودگی کے لیے ، تر و تازگی کے لیے ، نیند، آرام اور میم کا مراقبہ ضروری ہیں، وہ ایامِ فرصت جن میں خلوت نصیب ہو، ایک خوش بخت کے لیے مقامِ شکر ہیں! لہذا، جب جناب بوھر ردرفارڈؔ (Rutherford–Bohr model) نے پہلا ایٹامک ماڈل پیش کیا تو اطمینان سے فرمانے لگے کہ ایک ایٹم بھی ننانوّے فی صد خالی ہے! جی صاحب! خالی ہی تھا! سارے عالم میں خاموشی کی گونج تھی!!!

کیا ہے کہ اندھیرا کون خریدتا؟ کیا ہے کہ سبھی کو روشنی چاہیے ! جی صاحب ! نور ، ظلمت کے سوا نہیں ہے صاحب! آواز ِ خاموشی کے نہ ہونے کا نام ہے! دوئی تھی صاحب! نفی تھی صاحب! کہنے لگیں کہ صفائی کے بھی نمبر ہوتے ہیں ! بے شک ، ہمیشہ ، صفائی کے ہی نمبر لیے صاحب! صاف نکور پرچہ تھما دیا صاحب! کیا ہے کہ کورے ہیں! الف کورے صاحب! کاف کارے ! نہ کارے ! بے کارے ! یعنی ہر بھوک سے دوسرے بھوک کے درمیان ایک وقفہ ہے! وقفہ اختیار کیجیے ! خاموشی پہن لیجیے ! خرید لیجیے خاموشی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے