الف اُسطورہ! جی صاحب وہی کہانیاں ، وہی اُسطور جو بین السطور لکھی گئی تھیں، اُن کا بیان بہت مشکل ہے ، اُن پر کیسے بات کی جا سکے گی؟ اُن پر کون حرف آزمائی کرے گا؟ کہ وہ آوازیں جو قابلِ سماعت نہ تھیں، وہ کن حروف میں کیوں کر لکھی جاتیں ، محفوظ کی جاتیں ! آسان ہے حذف کرنا صاحب! تحریف تو بہت ہی آسان تھی! تخریب یقینی تھی! خرابے میں خرافے چل رہے تھے! ہم پوچھے کون ہیں! فرمایا یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں لغتوں کی گور نصیب نہیں ہوئی، جنہیں بولنے والے نے قابلِ استعمال نہ سمجھا، جنہیں محفوظ نہ کیا جا سکا تھا وہ آوازیں وہ الفاظ تھے صاحب! سر پیٹا کیے! کہ کیسی کھنچا تانی ہے! فرمایا لفظوں میں سلوک پیدا ہو تو رشتوں میں مضبوطی آئے! جی صاحب! مضبوطی! ضروری تھی! ہر چیز پائیدار چاہیے ! کیوں بھئی؟ پائیدار چیز کیوں چاہیے ؟ کیوں کہ مستعمل ہے! آسانی ہے، سہولت ہے! صاحب جو ذی شعور ایک ایک عقدہ کی کُشائی کے لیے سات سمندر پار جائے! جو عالم سوال کو اپنے ذہن کی کوکھ میں تجسس کا دودھ پلائے! وہ کہاں ملیں گے؟ جی وہ ناپید ہو چکے ہیں! جی وہ کم یاب ہیں! کامیاب وہ نہیں! کامیاب تو آپ ہیں! جو جہاں کہیں گئے وہیں سے حرف کو قابو کرنے کی کوشش کی، اور آوازوں پر زور آزمائی کی ! جی صاحب، مضبوطی کا دار و مدار روز آزمائی پر ہے! تو ہماری زور آزمائی ہار بھی گئی تو اردو زبان کی مضبوطی کا اندراج ہو ہی جائے گا! واہ صاحب! اتہاس بتاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق صاحب نے بھی ایسا ہی کوئی ریلیشن بنایا تھا، فرمایا کہ اگر کلمہ طیبہ پر یقین کامل ہے تو مجھے دس برس کے لیے صدر منتخب کر لو! واہ صاحب! تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر اردو پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں اپنا لیجیے ، ہم چاکری کریں گے، آپ کے لفظ دھو دھو کر سجائیں گے صاحب! آپ کے ہو جائیں گے صاحب!
کیا ہے کہ اُسطور ہیں، ہر طور ہیں اور تو اور کوہ طُور پر بھی ہیں .. جہ صاحب! کہانیاں .. کونین میں پھیلی ، بنتی سکڑتی، جلتی بجتی اور خاموش کہانیاں .. جی صاحب ادب ہی ادب .. لفظ ہی لفظ.. بیانیے ہی بیانیے ! جی کیا چاہتے ہیں؟ جی کتنا مانگتے ہیں؟ کیا ہے کہ ناپ تول میں بھی طُول و عرض ہیں ، جی صاحب ، دوئی ہے ! دوسرا نفی اثبات والا معاملہ ہے ! جی صاحب انتظار ہے! جی انتظار کا ہی اظہار ہے ! اب کہ پروفیسران کو قائل کیے ہیں کہ علم کی چُولیں ڈھیلی ہیں ! اور نظارے کی شہادت محض خاموشی سے دی جا سکتی ہے ! کہا نہیں ، ؎ اقرار بالسان کرو، اور تصدیق بالقلب! ہم خفا ہوئے کہ بھئی یہ کیا معاملہ ہے ، جب دل نے تصدیق کر ہی دی ہے تو صداقت کا اظہار ، کسی بھی زبان میں کیوں کر مطلق ہو سکے گا! کہ زبان و زمن کے سو اندیشے ہیں ! لیکن فرمایا، جو سمجھے ہو وہ کہو بھی لکھو بھی! کہ یہ بھی ایک سزا ہے، اِسے بھی ادا کرو! جی صاحب ! کر رہے ہیں تصدیق بھی ، اور اظہار بھی! کیا ہے جو کراہ رہے ہیں کیا ہے جو لڑکھڑا رہے ہیں ، آ تو رہے ہیں ! آ ہی رہے ہیں !
جی، کہانی لاد کر ! اُسطور پر !