اپنے بَول براز کو جسم میں رکھنا، اور ٹھہرانا، یعنی طفلِ مولود کہ جو فطرت پر پیدا ہوا ہے، کے مقابل اپنے مثانے کو عضلات کی مدد سے مضبوط رکھنا اور محدود اوقاتِ کار میں ، یا کسی مخصوص مقام پر اُس کا اخراج کر کے حاجت روا کرنا، یہ کیا ہے؟ یہ سماج کی طرف سے کی گئی پہلی “ٹرینگ” ہوتی ہے، اِسی کو فرائڈ صاحب ، انسانی شیر خوار کی پہلے دو سالوں میں کی گئی تربیت کا اوّل حصہ سمجھتے ہیں !
اِس پر بات کی جائے؟ یا رہنے دی جائے؟ کہا ہے کہ بول براز کے بعد دوسرا دور دہن و مقعد سے نکلنے والی اضطراری اور غیر اختیاری آوازوں کا ہے! نکالی جائیں؟ یا رہنے دی جائیں؟ کیا ہے کہ حافی ہیں، تہذیب کے حافی! نہیں جانتے ! جان سکتے ہی نہیں تھے! اتنا وقت ہی کہاں ملا تھا، کہ وجود میں اترتے ہی چاروں طرف سے موجودات نے نرغے میں لے لیا! ہم چونک پڑے صاحب! چونکے تھے ، چُوکے نہیں تھے صاحب! وہ تیر ہی گیا جو نشانے پر نہ لگے! خطا ہو جائے! وہ تیر کیسا!
خیر فرمایا، یہی سے بندر کا آدمی بننا شروع ہو تا ہے ، کہ بچہ جمہورا! گھوم جا! گھوم گیا! گھوم ہی گیا تھا صاحب، بچہ بھی اور جمہور بھی! جی صاحب خود کو نانی اماں کے مکان کی دیوڑی میں گھومتا ہوا پاتا ہوں .. ایسے گھومتا گیا صاحب! بعد ازاں بتایا گیا کہ یہی رقصِ درویشی ہے! جی صاحب ، پرفارمنس کی خاطر ہر ہر محفل میں شریک ہوئے! بن بلائے بھی آ گئے تھے، یہ سوچ کر کہ بُلانا بھول گئے ہوں گے، ہم خودہی چلے آئے صاحب! کہا ہمارا بھی ایک گیت سُن لیجیے ، ہماری بھی البم ریکارڈ کر لیجیے!
فرمایا “ریکارڈ” تو سبھی کچھ ہو رہا ہے، ہو تو رہا ہے! عالمِ کُل ایک ریکارڈنگ مشین ہے، ہر ذرے ذرے میں معلومات محفوظ ہو سکتی ہیں، ہو چکی ہیں! جی صاحب، وہی معلومات، وہی علم جس سے معلوم کا مفہوم موجود ہے! ورنہ کیا ہستی ، کیا نیستی! دونوں ہی محفوظات ہیں ! صاحب کیا ہے کہ لوحِ محفوظ ہے ! جی صاحب دو صفحات پر تھی صاحب! اور دونوں طرف متضاد الفاظ لکھے گئے تھے ! اُبھرتے اور ڈوبتے الفاظ کے درمیان صرف دوئی کا فیتہ تھا! فرمایا لوحِ محفوظ پر ہر چیز ریکارڈ ہو چکی ہے، ہو رہی ہے ! جی صاحب ! ہم بھی ریکارڈ ہی کرنے لگے، سب ریکارڈ کر لیں! جی، آوازیں ، نہیں ، خط نہیں ، خطوط نہیں ! کیا ریکارڈ کیا جائے گا؟
صاحب عمر بھر کی ریکارڈنگ سنی!
صرف خاموشی تھی صاحب!
اور اُس خاموشی میں شُوں شُوں کا شور شرابا! جی صاحب ! نصف اعمال ، اعمالِ دیگر نے ضائع کر دیے تھے اور الفاظ کو اُن کے متضاد نے گھیر رکھا تھا! کوئی لفظ ، کوئی عمل بھی دوسرے سے بڑھ کر نہیں ہو سکا تھا! ریکارڈ خالی تھا صاحب!
جی صاحب، موجودات کے نرغے میں ہیں، یہاں وہاں لفظ ہے تو معنیٰ مفقود، معنی ہے تو زبانِ دیگری! کیا بتایا جائے؟ کیسے گایا جائے؟ نوری، ناری اور آبی، خاکی سبھی بیٹھے ہیں .. دیکھ رہے ہیں.. ریکارڈ کر رہے ہیں .. جی صاحب! تو ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں ! عرض ہے کہ “چوک” چوراہا ، لاہور اور شیخوپورہ میں “چونک” کہا جاتا ہے ! اور اِسی طرح انتہائی معقول شخص بھی “گیارہ” کو “یاراں “ کہہ دیتا ہے! تو اِس پر کیا کیا جائے؟ کوئی پولیس بنا دی جائے ؟ جو بیچ چوراہے کے سب ناطقوں کی “چ” دُرست کرے؟ واہ صاحب! چ! کیا “چ” چیز ہے! جی صاحب! “چ” ہائے، ہم نے چ کو بھی “چہ؟” ہی پڑھا پوچھا!
ایک چ اور ایک “چھ” جی صاحب! چ چھ، چھ چ کی آوازیں آ رہی تھیں ، ہم نے جھانکا تو ایک بچہ جُنھجنا لیے تھا۔ خیر، “چھ” کو مِس آمنہ نے “چھے” بھی لکھا، کہا دونوں طرح سے لکھ سکتے ہیں۔ ہم چ سے چُونک گئے صاحب، کہ یہ کیسا چُتیاپ ہے؟ چ ، پ ، ش اور، ث، نقطوں کی ثروت سے مالا مال ہیں! جی لعل ہی لال ہیں! فرمایا لعل شاہباز قلندر نے کہ سبھی لعل ہیں، جی صاحب لعل بھی لال ہی تھے ! جی صاحب، مار مار کر لعل بنائے گئے تھے! فرمایا مار پیٹ سے آدمی کُندن بنتا ہے ، ہم تو لال پیلے ہو گئے تھے! لعل بن گئے تھے ! ایسے میں ابا میاں کی آواز کان پڑتی ہے ! فرمایا
؎ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواّص کو مطلب صدف سے کہ گُہر سے
اب “صدف” سے تو ہم کو مطلب تھا ، تو غواص کو مطلب “گوہر” سے ہی ہو سکتا ہے ! جی صاحب ! ہم جھٹ سے گھر گئے اور دیکھا، صدف کے مقابل، گوہر لکھا تھا ، اور گوہر کے مطابق جوہر ! جی صاحب ! واہ صاحب! گوہر سے گوہر شاہی یاد آ گئے ! کیا کہیں ! بول سکتے ہیں ؟ یا بول و براز کی طرح دہن و مقعد کی طرح ، حروف پر، خطوط پر بھی ، تربیت ضروری ہے؟ ہم چُونک گئے صاحب!