عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
جی دوستو، ساتھیوں ، مجاہدو! واہ صاحب! مجاہد سے مجاہد صاحب یاد آ گئے ! خدا جانے کہاں گم ہیں وہ سب کردار ، جو آسیب بن کر ذہن میں منڈلاتے ہیں ، وہی شام کے دھندلکے سائے، وہی کراہتے جن و بشر .. وہی سایہ دراز خاموش رات! کیا ہے کہ منہاج القرآن اسکول میں خود کو پاتے ہیں ، یہ وہ زمانہ تھا جب عربی زبان لازمی کیے جانے کا تجربہ کیا جا رہا تھا.. ہم بھی رنگ و مہینوں کے نام گنتی وغیرہ یاد کر چکے تھے .. کیا ہے کہ موسمِ سرما کی ایک خوبصورت صبح ہے، کیا ہے کہ ہرے رنگ کا سیوٹر پہنے ہیں ، کیا ہے کہ کیاری میں گلاب کھلے ہیں ! کیا ہے کہ رُک گئے ہیں اور خود کو اُس پیارے سے گلاب کا مراقبہ کرتے ہوئے پاتے ہیں .. گال گُلاب، گُل ، آب اور آبِ گِل، سے شروع ہونے والا گال گوئیاں ، گَ سے گاف تک کے ظاہری اور باطنی معنیٰ کشا کرتا چلا گیا ..
خیر، خدا جانے ، مجاہد کی اور گاف کی بحر کیا کبھی بن پائے گی؟ نہیں جانتے تھے صاحب! بحر کے مفاہیم ہی نہ سمجھ پائے تھے ۔ کہ پوچھا “نظم “ کیا ہے؟ کیا ہے نظم؟ اب کہ خود کو محلہ حاجی پورہ میں ایک شادی کی دعوت پر پاتے ہیں ، کچھ لوگ آئے صاحب، کھایا پیا اور چلے گئے ! ایک چچا نے ہمیں مدہوش سا پا کر پوچھا کہ “انتظام” ٹھیک ہو گیا تھا؟ وہ “انتظام” تھا صاحب؟ ہائے کیا بتاوں! انتظام نہ ملا، ملک کا نظام نہ ملا، مگر کیا ہے کہ نظم چاہیے! کیوں بھئی کون کہے نظم؟ نظم کیسے آئے؟ خود کو موٹروَے پر پاتے ہیں اسلام آباد داخل ہونے لگے ہیں کہ قائدِ اعظم کی شبیہ بنی ہے، نیچے انگریزی میں ، ایمان، اتحاد، تنظیم لکھا تھا صاحب! کبھی شاموں میں جگ مگایا بھی کرتا تھا، وہ لکھا ہوا.. چائنہ کی لائٹ لگائی گئی تھی صاحب!
لگانے والے انگریزی سے نابلد تھے ! جی صاحب اور آپس میں جو بھی کوئی زبان بولتے تھے اُس میں، ایمان، اتحاد، اور تنظیم کا نام و نشاں تک نہ تھا.. تنظیم کی بتی گول تھی صاحب .. ایک تنظم نہ تھی صاحب! تنظیمات تھیں، اور اُن تنظیمات کی تعلیمات تھیں، نظریات تھے .. یہ سمجھو ! وہ کرو!! یہ چھوڑ دو! وہاں جا کر بیٹھ جاو! جی صاحب! مجاہدین بھی بیٹھ جائیں ! مجاہد بھی بیٹھ جائے ! اُس کا صرف نام مجاہد تھا! مجاہد تو جہد میں منجمد نہیں ہوتا، جہد میں ، جِّد و جہد کرتا ہے ، ہر ہر بُعد میں ہر ہر جہت میں ، جِدو جِدّت کی جہد کرتاہے ! مجاہد ہے ! جی ، ہم تھے صاحب، مجاہد! بتلایا کہ جہاد کی بھی دوئی ہے! ظاہر کا ہے اور باطن کا اور ہے! اکبر ہے تو اصغر بھی ہے! جی تو صاحب ہم آسن باندھے بیٹھ گئے ! کیا ہے کہ “ برگِد” کا ایک پیڑ تھا صاحب! ہم اُسی سے کھیلا کیے! اور برگد کے اُسی درخت کی مجذوب چھاتی سے چپکے رو لیے .. جی صاحب ! آپ سے ہی بات کرنے کو، کیسے بلکتے تھے صاحب! کیسے بلکتے ہیں صاحب!
تو ہم آ گئے تھے ، اِسی عبرت کدے میں ! سرائے دہر میں ! کیا کرتے ؟ چارسُو عبرتیں ہیں ، عبارتیں ہیں ، رُتیں ہیں ، گھم چھم اندھیری گُھم گھنیری رات ہے اور اُس میں ہم اکیلے ہیں .. تو ہیں ! فرمایا شاہ غوثن نے کہ ایک مریدِ باصفا اپنے شیخ کے روبرو شکایت کرتا ہے کہ ایک مدت آپ کے پہلو میں بسر ہوئی اور کچھ ہاتھ نہیں آیا! اب اِسی بات کو اگر یُوں پیشِ خدمت کیا جائے کہ ایک چیلے نے اپنے سادھو، یا گُرو سے شکائیت کی ، تو آپ کے ذہن میں نوعیت کیوں بدل جاتی ہے؟ کیوں آپ کو ایک، دوسرے پر برتر دِکھائی دیتا ہے؟ دھوتی اور اُچکن میں ، یا کاشیؔ اور کعؔبہ میں ایسا کیا جنجال ہے؟ کہ ذہن کی بصری تصورات میں ایسا ہنگامہ فیڈ کیا گیا ہے ، یا پھر انتصال ہو چکا تھا! خیر، مجھ سا مریدِ ملامت، وہاں گویا موجود تھا، شیخِ کامل نے ایک عمل کیا، پوچھا آنکھیں بند کرو، کیا دیکھتے ہو..
فرمایا چار سُو ، اندھیرا ہے ، کہا اُسی میں چلتے جاو، چلا گیا صاحب ! میں چلتا گیا.. کوسوں صاحب ، میلوں ، صد صد میلوں ، کالے کوس، میں چلتا گیا تھا صاحب، ہر شخص سے آپ کا ہی پتا پوچھا، ایک چیخ و پکار ہے، ہا و ھو ہے .. اندھیرے میں اور اندھیرا، ظلم پر ظلم ہے، آہ و بقا ہے ، ہم نے پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ فرمایا “انتظام” ہو رہا ہے ! واہ! کیا بات ہے! سرائے دہر میں ، عبرت دیکھنے والوں نے کیا انتظام کرنا تھا؟ اِتنی عجلت میں حاصلِ کُن ، کیا ہوتا، جہانِ خراب کو دیکھنے والا اُسے عبرت ہی بتاتا ہے ۔ دہر کا سرائے ہے ، تو ہو! یعنی ہم دیکھ رہیں ہیں، اندھیرے میں ! اندر کے اندھ ہیرے ہیں ، ہیر پھیر میں ! جی صاحب ! ہیر پھیر نہ کیجیے گا، چلتے چلے جائیے گا۔ جی صاحب ، ٹریا ٹریا جا فریدا!