کیا ہے کہ آپ سے اُداس ہو گئے تھے ، کیا ہے کہ ہم پھر سے آ گئے ہیں ،
جی صاحب! آگئے تھے ! آتے رہے تھے اور بار بار آتے جاتے رہے تھے ! رہے ہیں! جی صاحب ! آپ سے ہی تو بات کہنی تھی، آپ ہی سے تو اُداس تھے ہم! کیا ہے کہ اب کہ خود کو شمس و قمر کی رونقوں سے حظ اندوز پاتے ہیں ! کیا ہے کہ بون میں ہی ہیں! بَون میں صاحب! بیت ہو َوَن میں ! تو موجود ہیں!
بسیرا فقیر کا ایسے مقام پر ہے کہ جہاں سے قریب ترین اسٹور پر خود کو پاتے ہیں، کیا ہے کہ بھوک ہے! اور وہاں جاتے ہوئے ، آپ سے باتیں کرنے کا بہت من چاہا، یعنی مرنا چاہا ، آپ پر صاحب! کیا ہے کہ جی چکے تھے ! اور ایسا جی چکنا بھی کیا تھا صاحب! رونقیں ہیں ! اور ہیں بھی شمس و قمر کی! تو کیا کرتے،
جھوم رہے ہیں! اُسی جھوُمنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ آج مریخ قمر کے پاس آ گیا ہے، تو سوچا آپ سے بات ہو لے! کیا ہے کہ گردِشیں ہیں! جی صاحب ، اُنہی گردشوں میں ، غلام گردشوں میں خود کو گرفتار پاتا ہوں ! صاحب کافکا کی طرح ، جی صاحب ! سلاخوں کے پیچھے ! پوچھا جرم کیا ہے ، کہا لفظ کا چور ہے ! حروف بیچتا ہے ! آواز کی گرہ لگانا کیا ہے؟ فرمایا گردان ہے!
کہا بتلائیے “گردن” تھی صاحب! کوئی بولا گردن میں “ن” فاضل ہے، نکال دیجیے! کہا صرف “گرد” تھی۔ گردو غبار! شاہ غوثن پانی پتی یاد آ گئے ، فرمایا ؎ مشتِ غبار ہے! ، کہا جی ، کا بار ہے! فرمایا بار ٹھیک ہے؟ سو سلاخوں کے پیچھے رہو، چھپ کر ، ایک گہناونے زمانے میں جی کر! فرمایا زمانہ کہاں بُرا ہے زمانہ تو میں خود ہوں!
خود ہی میں ہوں! یہ کیا ہو رہا ہے، جی ، لفظ ارسال کر دیجے ! ہم سے بات کر لیجیے ! بات ہی تو کرنی تھی ، بات ہی تو کرتے ہیں ! آپ کہاں ہیں؟ کتنے ماہ و روز چلے گئے، ہم موسموں میں آپ کو ہی ڈھونٹے رہے ! آپ کی خاطر ، جینے کی خاطر لفظوں میں کھوئے رہے ! اور لفظوں کی عمارت میں ایک “حرف لاتعلق” بنے بیٹھے ہیں! کہا بیٹھے رہیے ! خامشی سے!
جی چاہا کہ میری گور “دوستوفیسکی کے ناولز میں بنا دی جائے “ ، میں ایک کردارِ افسوس بن کر چل بسوں! لیکن رہوں لفظوں میں ! سوداگر نہ سہی، چور سہی! ہائے صاحب کیا بتاوں ! کہ چوری اور سوداگری میں کیا فرق ہے صاحب! ایک “برینڈ کا بیچتے ہیں” دوسرے چکمہ دے کر چرا لیتے ہیں ، تو چرانے والے بھی تو بیچ ہی رہے ہیں ناں “ یہی سب سوچ رہے تھے کہ لکھیں گے ، آپ سے بات کریں گے ، کہ لفٹ کا انتظار کرنا پڑا! جی صاحب! کافکائی انتظار میں ، آپ کے انتظار میں کھڑا تھا کہ لفٹ کھل گئی ، اندر ایک محترمہ موجود تھیں! ہم دیکھا کیے ! پوچھا “چائینہ شریف “ سے ہیں؟ فرمانے لگیں ، جی ، تائیوان” سے ہوں ! اُن سے پوچھا حالات کیسے ہیں؟ کہنے لگی کہ ٹھیک ہیں !!!
مسکرائیں اور چلی گئی! کیا بتاتے کہ ہمارے یہاں کا حال کوئی تو پوچھے ! جی ، خرید لیجیے! اردو زبان بھی خرید لیجیے! بکِری نہیں ہو رہی ! منڈی میں مندا چل رہا ہے ! طوطے امرود بیچ رہے ہیں اور شیروں نے بکریوں کے لشکر بنائے ہوئے ہیں ! مچھلی تھی صاحب ، بہت سی مچھلیوں کی طرح ایک مچھلی صاحب! طالبِ علمی کے زمانے میں دو عزیز غلطی سے ہمارے ساتھ کورس رکھ لیے ! جو صاحبہ پڑھانے آتی تھیں ، اُن سے بھی ہم بگڑ گئے ! ہم بولے آپ بھی مچھلی ہیں! اُن کا نام ہی “بشیرا دالماہی” رکھنے پر خود کو آمادہ کیا! جی صاحب ، گولڈ فِش تھیں! ہمیں پڑھا رہی تھیں صاحب! اگلے روز آفس میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سنہری مچھلی ایکواریم میں کالے چنے اور سفید چاول کھا رہی ہے ! بہت تعجب ہوا !
یا خدا یہ کیا ہو رہا ہے! ساتھ والی کلاس میں ایک ریچھ پڑھا رہا ہے اور اُس کی سامنے والی جیب میں گولڈ لیف کی ڈبی ہے! تو صاحب جنگل میں سب نے منگل ہی کیا ہوا ہے ! “شَنی کی گھڑی “ ہے ! گردشیں ہیں ، اُنہی میں گھومتا کوئی اشیائے خورد و نوش لینے لگتا ہوں تو خود کو ایک چوہا پاتا ہوں ! جی صاحب ! چھوٹا سا ایک چُوہا! جو منڈی میں ہو! لفظوں کی منڈی میں ، اسٹور پر ، جاتا ہوں ، لفظوں کی بھیک مانگتا ہوں !
جی صاحب ! نہ ملے تو چُرا لیتا ہوں ! لفظ ہی لفظ ، پرانے لفظ ، نئے لفظ، نئے میں پرانے اور پرانے میں نئے ! نیا کیا ہے صاحب ؟ کوہلیت کی تلاوت کیے صاحب ! فرمایا کہ تاریخ اور مذہب میں شامل کر و ! تناخ کا حصہ ہے صاحب ! کہتے ہیں کہ پیغمبر سلیمان کا نُسخہ ہے! واللہ عالم! اُس کا آغاز دیکھیے! کہ روئے زمین پر ، آسمان کے نیچے کوئی شے نئی شے نہیں ہے! تو اب آپ بتائیے کہ نیا کیا ہے ؟
جب ایلفا اور اومیگا ، ایک ہی ہے ، جب اوّل آخر ایک ہی ہے ! تو ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ ایک ہی ہے ! جب آپ دو کہے ، ہم ایک کہے ، جب آپ ایک کہے ہم مانے ہی نہیں ! کہ سوداگری ہے ! لفظوں کے بازار میں کھڑا پاتا ہوں صاحب ، ابا میاں مرحوم نے ایک مرتبہ جھاڑ پلائی ، کہا انگریزی ٹھیک سے سمجھو! کہا جاو، قریہ کے بازار میں جا کر کھڑے ہو جاو ، اور آتے جاتے لوگوں سے لفظوں کی بھیک مانگو!
جی صاحب ، کہا انہوں نے ! کیا ہے کہ پکارتے ہیں ! کیا ہے کہ چیختے ہیں ! کیا ہے کہ کوئی سنتا ہی نہیں ! کیا ہے ! کہ کوئی ہے ہی نہیں ! ایک پکار ہے ، ایک حرف ہے ، جو ہے بھی کہ نہیں ہے ! ہے تو دیتا جا! اُس بازار میں گئے تو بصرہ کوفہ ، سمرکند و بخارا وہی پہ طے کر لئے صاحب ! زمانوں میں ، زبانوں میں گردشیں چل رہی ہیں ! ہم مشاہدہ کر رہے ہیں ! ہر ہر لفظ کا ! کیا ہے کہ مانگتے ہیں ! انگریزی نہ سیکھی ! بھکاری تو تھے ، بھوکے بھی تھے ! تو ایلفرڈ اڈلر کے چوہوں کی طرح ، عادتوں سے مزین ہیں ، کیا کھایا جائے ، کیا لیا جائے ! لیا جائے یا چرایا جائے ! جو بھی ہو آپ سے بات تو ہو!