Skip to content

نشست 13: ‘ب’ بھوک کے واسطے!

آج پانچ بجے مجھے "بِلیفیلڈ” کے لیے روانہ ہونا ہے، یعنی اُس حبسِ بے جا کو، جا بجا ، بجایا گیا تھا! حبّس نہ ہوئی، حبسِ بے جا نہ ہوئی، کوئی باجا ہوئی! جسے بجایا جانا ہے، بینڈ باجا بجے گا تو بارات آئے گی؟ لیکن کیا ہے کہ جس دلہن کی رین سہاگن! وہ گوری، دلہنیا کہہ لائے گی! مطلب جو آپ کو، صاحب آپ کو پسند ہی نہ ہوئی وہ کنیہا کس کاری؟ کیا ہے کہ باجے والے آتے ہوں گے! آپ کی چیخ نکل گئی کہ باجے والے آتے ہوں گے تو باجے کی بھی دوئی ہے، باجی والے بھی آتے ہوں گے! صاحب ، باجی والے، بڑے تھے صاحب! بھونک لیتے تھے! غرّا لیتے تھے! ہم بلکتے ہیں، بھونکتے نہیں؟ آپ پوچھے کیوں نہیں بھونکتے، کیوں اجازت لیتے ہو؟ ہم نے کہا صاحب ، باجی والے ہیں! بلک لیتے ہیں! چاہتے تھے کوئی بات چیت ہو گی! مگر بات ہو ہی نہیں سکی!

الف ایسا کاری ہے، دو دھاری ہے کہ بات “ب” تک آنے نہیں دیتا۔ شاید اِسی لیے بابا بُلھے شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ ؎ اِکو الف تیرے درکار! ہمیں درکار نہیں ہوا تھا، آر پار ہو گیا تھا! الف ، آئینہ تھا صاحب! بلکہ سچ پوچھیں تو جس دن اِسے دیکھا ہمیں بہت اچھا لگا، سر پر “مد” کا پَف بھی ہے، ہم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا اِس پر “مد” ہوتی ہے! ہم نے انگریزی والی مِس سے پوچھا کہ A پر بھی مد ڈالی جائے! ہائے! اب کہ خود کو منہاج القرآن اسکول میں پاتے ہیں، جن دِنوں بی بی فرماتی تھیں کہ “اذان بج رہا ہے” ، اُنہی دِنوں میں انگریزی “A” پر مد ڈال بیٹھے تھے! مارا کیے مِس آمنہ! جی صاحب! نام میں “مد” ہی تھا! جس پر مد تھی، جس جس پر مد تھی، وہی آمد تھا! مد، مادھو، مد مادھوری، مد میم کی ڈالی! مد کی شان بیان کی جائے! مد نہ ہو تو آمد ہو ہی نہیں سکتی، اور آمد نہ ہو تو خوش آمدید کیسے ممکن ہو گا صاحب! تو آج روانگی ہے! آج کی مد میں روانگی ہے!

جی آج روانگی ہے، کیا ہے کہ سفر و حضر میں ، ایک سا تاثر نہیں، کیا ہے کہ باوَرے میں ، بنجارے ہیں، بنے جا رہے ہیں ! اور بننے بگڑنے کے اِس عمل میں ہونا، تو ہو تا ہی ہو گا، لیکن ہونا اور ہوتے ہوئے “الف” رہنا مشکل کام ہے صاحب! بابا جی نے فرمایا کہ جس سَمے حرف ِ الف پر تجلی ِ یزداں ہوئی تو لرز کر گر پڑا، تو یوُں اُس کے ٹوٹنے سے “ب” بنی! جی صاحب! ب بسم اللہ! “ب” سے ہی تورات ، انجیل اور زبور کا آغاز ہوا ۔صاحب! مثنوی بھی “ب” ؎ بِشنو می حکایت، سے کلام شروع کرتی ہے! ہم ، ب سے بَون کا بنجارہ ، کی تشکیل ِ نوع اور دیگر دیگر کتب کی تشہیر واسطے جاتےہیں ! پوچھا کون ہے؟ صاحب بکھاری ہے یا لکھاری ہے ، ہم سمجھ نہیں پائے ! بھوکے بھی ہو اور بھونکتے بھی ہو! کھا لو دو چار دانے، ہمیں نہ چاٹو! کیا ہے کہ چاٹتے ہیں! جی صاحب! آپ کے قدم، کیا ہے کہ پِلّے ہیں! زمین و زمن کہ ایک جہت میں بِلکتا پِلّا! ہم نے لوٹ کر دیکھا تو ہمرا نفس تھا صاحب! جی صاحب! ابھی “کتا” نہیں ہوا تھا صاحب، پِلّا ، پِلّا ہی رہا صاحب! بچہ ، بچہ ہی رہا!

ہمرا نفس “پلّہ تھا صاحب! پھولا نہیں ، سمایا نہیں! رُکا نہیں ٹھہرا نہیں، آپ کے تلوے چاٹتا ہے، آفاق میں جھانکتا ہے! فرمایا ایسا نہیں کہتے ، تان نہ چُوکے! بحر ٹھیک سے سناو! کہا جی، دُلہنا کہاں ہے، سہاگ کہاں ہے؟ راگ ہے، تو الاپ لیتے ہیں ! تنہائی کے مبارک راگ! خاموشی کی اقسام کو پہچاننے والا شخص ، خاموشی میں بھی گیت سُن سکتا ہے، ہر بحر کی بحر کے ساتھ با برکت تعلق میں آ جاتا ہے! آنے والا آتا ہے! فرمایا کہ ایک بی بی کا میاں سے جھگڑا ہو گیا، وہ روٹھ کر میکے آ گئی! اِسی دو ران دو بچوں کو جنم دے چکی، پوچھا یہ کیا ہے؟ کہنے لگی جی، سہاگ ، کبھی کبھی “منانے” آ جاتے ہیں ۔ تو آپ بھی آتے جاتے رہیے! مناتے رہیے! پِلّے کو کیا بُوجھ، کہ تَلوے کس کے ہیں! آج صرف چاٹے گا، آج شو نہیں ہو گا! چ، کام چور ہے! اُس کو پکڑنے جاتے ہیں، آج صرف ب کی بِکری ہے، جی یہاں پاس میں کوئی بیکری ہے؟ وہاں سے ب بریڈ لینی ہے! ب بھوک کے واسطے! بھوکا لکھاری ، بوڑا بکھاری، بے کاری! ب سے بحر بندھی ہے صاحب! نفس پر نظر رکھنے والا ناظر، منظر کے مشاہدے میں ب بحر باندھتا ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے