ایک جانور کو سُدھانے کا ذمہ جانور نے لیا ہے! دیکھیے ناں! جانوروں کو سُدھانے کا کام آدمی کرتا، کوئی دوسرا جانور کرتا تو بات اور ہوتی، یہاں آدمی سے پہلے ہی فوق البشر آ جائے وہاں کیا بنتا! چلیے شاید کچھ بن بھی جاتا لیکن یہاں تو بات اور بھی آ گئے چلی گئی! کہ مختلف اینٹیٹیز ہیں، حاضرات ہیں، موکلات ہیں، جن بھوت ، اوتار ، اور سب سے بڑھ کر خلائی مخلوق! مطلب سوچتا ہوں کہ جب پاکستانی سیاست کے بیانیے کو، یا اِن کے کسی بھی کہے کو انگریزی یا دوسری تیسری زبانوں میں کیا جائے گا تو صورتِ حال کو اُن زبانوں میں پڑھنے والے قاری کیا سمجھ سکیں گے؟
کیا جان سکیں گے کہ وہاں یعنی وطنِ عزیز میں کیا ہو رہا ہے؟ جی کیا ہو رہا ہے وہاں؟ خلائی مخلوقات ہیں، موکلات ہیں، ” ن” والے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب پر “سایہ” ہے! مبشر لقمان صاحب کو “چڑیل” خبر یں بتاتی ہیں اور اچانک بیٹھے بیٹھے ایک خلائی مخلوق کا جتھا آتا ہے اور آپ کو اُچک کر لے جاتا ہے! ہم پوچھا کیے کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ ۔ فرمائے خلائی مخلوق لے گئی تھی، ارے کیسے لے کر گئی تھی؟ فرمایا “ڈالے” میں صاحب! کالا تھا صاحب! ہائے اندازہ لگائیے! کہ کالے گورے کی بھی دوئی ہے!
آپ فرمائے ! ارے واہ، خیر و شر کی بھی دوئی ہے، حاضر و ناظر کی بھی دوئی ہے! یعنی جو موجود تھا اُسے غائب کر دیا گیا ، غائب کرنے والے غائب مخلوق ہیں ، نور والے الگ ہیں ، ناری والے الگ ہیں اور دو نوری اور ناری نہیں ہیں ، آبی یا خاکی ہیں، جی ، وہ بھی الگ ہی ہیں، جی ، فاصلہ رکھیں، پھر فرمایا “مناسب” فاصلہ رکھیں! جی ! رکھ ہی تو رہے ہیں مناسب فاصلہ! وہ ساتھ ہی چپکا تھا صاحب! بس میں، ویگن میں، رکشہ میں، اور ہر ہر رشتہ میں، بہت چپک کر بیٹھ گئے صاحب! ہم نہیں جانتے تھے کہ کون ہے؟ میرا مطلب ہے ، نوری ہے یا ناری ہے؟ آبی ہے یا خاکی ہے؟ فرمایا ” پاکی“ ہے! ہم نے جھٹ سے کہا کہ پاکی پلیدی کی بھی دوئی ہے! فرمایا نہیں پگلے، مطلب، پاکستانی ہے، ہم نے اُچک لیا، پاکستانی بھی ہندستانی کی دوئی ہے! وہ روئے صاحب! ہم نے کہا ، گبھراو نہیں ، رونا بھی ہنسنے کی نفی ہے! آپ فرمائے، نفی بھی مثبت کی نفی ہے ۔ واہ صاحب !” نفی“ کی تان بیٹھنے لگی ہے، آپ نے فرمایا کہ نفی ہو جاو، نفری گھٹاو! ہم جُھومے! کہ گھٹنا بھی بڑھنے کی نفی ہے! نفی ہی نفی ہے ، فنا ہی فنا ہے! آپ نے کہا اجی ، فنا بھی بقا کی نفی ہے ، دوئی ہی ہے! تو شکیل صاحب فرمائے،
؎ نہ فنا میری ، نہ بقا میری ، مجھے ائے شکیل نہ ڈھونڈیے!
میں کسی کا حسنِ خیال ہوں، میرا کچھ وجود و عدم نہیں
یعنی رعایا، سرکار کی نفی ہے، فرد اور معاشرے کی دوئی بھی تو ہے! کیوں ہے یہ دوئی! صرف اتنا سوال ، کہ یہ دوئی کیوں ہے”؟ فلسفے اور ریاضیات کا جلیل القدر سوال ہے! یہ دوئی کیا ہے؟ اِسی کی معرفت کا بیان ہے! ہم کہتے ہیں جو بھی ہے ، پیکار ہے! یعنی بر سرِ پیکار ہے! یعنی “پیؔ” کار ہے، پیا کا کار ہے! کار ضروری ہے، یعنی گاڑی ضروری ہے! اب گاڑی کب ملے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا ! قطار میں کھڑے ہیں، اور صاحب، قطار میں ہی کھڑے ہیں! بلکہ یوں کہہ لیجیے قطار اندر قطار کھڑے ہیں، یعنی قیام میں ہیں، وہ بھی جو رکوع میں ہیں اور وہ بھی جو سر بسجود ہیں، سبھی، ترتیب میں ہیں ، یہ ترتیب دوئی کی ہی ہے ، حاضر اور غائب ہونے کی !
آپ ذرا دیکھیے کہ ہجوں کے ستم ایک طرف، آوازوں کے اندیشے ، دل کی ہوک، کُوک ، آہ و صدا، قہ قہا، نِدا اور پکار میں کیا ایک سا تھا، یا ہر منظر کے ساتھ ساتھ اُس کے پسِ منظر سے اُبھرنے والی جو آوازیں ہیں ، اُن کا کیا کرنا ہے؟ جی وہ رِکارڈ نہیں ہو سکتیں! وہ حذف کر دو! رہنے دو! کاٹ دو، مٹا دو، ہم پوچھے کیوں صاحب؟ کہنے لگے دوئی نہیں چاہیے؟ بھئی کیوں نہیں چا ہیے؟ فرمایا شرک ہوتا ہے! اتنے میں قلندر غوث علی شاہ پانی پتی فرمانے لگے کہ جنیدِ بغداد نے کہا کہ توحید میں ، توحید بھی شرک ہے! ہم جھُوم گئے کہ جدید طبیعات بھی یہی سمجھی ہے کہ مادہ ، انرجی کی دوئی ہے ! ہائے خدایا ، کیا کہوں ، کہنا سننے کی دوئی ہے! اِس دوئی کے تصور نے ہمیں ریاست اور فرد کی دوئی سے ہم کنار کیا، پار کیا۔ پار ہونا بھی ڈوبے کی دوئی ہے!
لیکن آج ! ڈوبا نہیں جائے گا! آج تیرا جائے گا۔ تیرتا جا ، تیرا کیا جائے گا! کیا جائے گا تیرا! تیرا بھی میرا کی دوئی ہے! جب دوئی ہے ہی، اِکائی کی دوئی ! تو دوئی تو رہے گی بھائی ! آپ نے کہا بھائی بھی، بہن کی دوئی ہے، ذَکر ، اُنثا کی دوئی ہے! ہر جوڑا، فرد کی دوئی ہے! آج دوئی پر تیرئیں گے! اِس کا ارتھ یہ ہے کہ یا اِکائی میں ڈوبیں گے؟ تضاد ہی تضاد، اضداد ہی اضداد، افراد ہی افراد .. لیکن کیا ہُوا کہ فساد ہی فساد ہونے لگا.. ہم تڑپے کہ ، فساد بھی امن کی دوئی ہے .. واہ ، کیا دوئی چل رہی ہے … اب کہ خود کو سوِمیونگ پُول میں پاتے ہیں ، کانوں پر سیاہ چشمے لگائے ہیں اور کانوں میں “اوووم” نہیں گونجتا، کانوں میں “او شو “ گونجتا ہے.. او ، بھی “شو “ کی دوئی ہے!
دوئی ملاحظہ ہو!!!