؎ وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور ،کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
“کوئی اور” کسی اَور کی طرف تھا شاید! آپ پوچھے کہ کوئی اور میں اور کئی اور میں کیا فرق ہوگا؟
؎ کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
سلیم کوثرؔ بھی ہمیں سمجھانے لگے کہ “دیکھنا انہیں غور سے” ہم جانتے تھے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ لوٹنے والے کو ب سے دیکھنا! ب سے دیکھے تو کیا دیکھتے ہیں ؛
؎ سر ِآئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
اتنے میں کہیں سے طاہر فراؔز کی آواز آئی؛
؎ مری منزلیں کہیں اور ہیں مرا راستہ کوئی اور ہے
ہٹو راہ سے مری خضر جی مرا رہنما کوئی اور ہے
درشؔن سنگھ جی بھی آگے بڑھے ؛
؎ تجھے کیا خبر مرے ہم سفر مرا مرحلہ کوئی اور ہے
مجھے منزلوں سے گریز ہے میرا راستہ کوئی اور ہے
اور ہی اور
کئی اور ، کوئی اور…
یہ سب کیا تھا اِسی پر بیچار کرنے لگے تو آخر تھک گئے ؛
؎ اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
۔ ۔ ۔
آپ اِشارہ کیے اور فرمائے وہ سودائی ، کوئی اور ہے!
اور یہ ہرجائی؟
ہم جان گئے ، کوئی اور ہی ہے!