آپ فرمائے کہ آدمی آوازوں کا بھکاری ہے..
اوّل روز سے دمِ آخر جو سناٹوں کا شور ہے، آپ کہے، کیا وہاں کوئی اور ہے؟
نہیں تھا صاحب، کوئی اور تھا ہی نہیں !
یعنی،
اور ، کوئی اور نہیں تھا، آدمی خود ہی “اور” تھا۔ ابھی یہی دیکھ لیجیے کہ اردو زبان کا لفظِ “اور”، کا “واو” فارسی و عربی سے چلا آیا، مگر اِس کا انگریزی ترجمہ and, more کیا جاتا ہے، مگر اینڈ کا “الف” اور مور کا “اور”، (,aor,eor, ore,aore) انگریزی کے کونسے ہجوں سے لکھا جائے گا؟ اِس کا آسان حل یہی ہے کہ وہ حروف جو تحریر میں رائج العوام ہو چکے ہیں اُنہی کو معروف مان کر استعمال کیا جائے تو انگریزی حروف میں (or) لکھا جائے گا۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ اِن آوازوں کو ادا کرنے والا کوئی بھی متکلم ، ممکن ہے کہ مندرجہ بالا ہر ہر انداز سے آوازِ اور نکالتا ہو، مگر کسی بھی آواز کو پابندِ حروف کرتے ہوئے ایک طے شدہ لفظ لکھا جائے گا ۔ مگر اُس موسیقی کی نوٹ کو بجانے والا ہر باجا اپنی ساخت اور شناخت کے اعتبار سے ہی “اور” کا اخراج کرے گا۔ ہند اوروپائی (Indo-European) زبانوں میں مشترکہ معنیٰ کی حامل ایسی بہت دلچسپ مثالیں مل جاتی ہیں ، اور … اور … اور ..
“اور” ایسے میں درشن سنگھؔ نے اپنا تعارف کروایا؛
؎ مرا نام درشنؔ خستہ تن مرے دل میں کوئی ہے ضو فگن
میں ہوں گم کسی کی تلاش میں مجھے ڈھونڈھتا کوئی اور ہے
آہ صاحب! وہ اور، کون تھا؟ ہم سمجھ گئے کہ وہ “اور”،یقیناً کوئی “اور” ہی تھا ۔
؎ الف اللہ ، و ، وانگ فقیراں اِتے ر راہ فقر دا موری ھُو
ہمیں آوازوں میں ، ایک “اور” آواز کچھ یُوں سنائی دی ، موری کو کوئی ، ہوری سمجھا تو کوئی سوری۔ ہم اوری سمجھ، اور ہی سمجھے!
اِسی “اور” کے شور میں ہمیں گلزاؔر پکارے؛
؎ ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رک کر اپنا ہی انتظار کیا
آہ صاحب! الف انتظار ،
اور انتظار،
اور انتظار .. پھر ایک اور انتظار!
انتظار کی راہوں کی طوالت کسی اور کی سی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔