دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے!
چلے گئے صاحب! سبھی اختیار !! اختیار تھا ہی کہاں! مانگے کا اختیار ، ملے کی بھوک! چہ سود! خیر! آپ میں علم و فنون کے با ریش اصحاب موجود ہیں! ہم کہاں اور آپ کہاں صاحبا! ہیں کئی ہجر درمیاں صاحبا! اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہجر سے ہمارا بیر کیوں ہے! ہ ہجر کو اللہ کی مار ہو! خیر، ہجر ہی کا اختیار تھا! ہم نے پا لیا صاحب! اختیار تو چلا گیا، ہجر سامنے آ گیا! کیا ہے کہ صاحب اب کے خود کو بھکاری پاتا ہوں ، یعنی مانگتے ہوئے شرماتا ہوں! نیا ہوں صاحب! مانگنے کی منڈی میں! مانگ کی ہی مانگ ہے ، مانگ میں سِندھور کی جگہ بھی مانگ ہی ہے صاحب! کوری مانگ! مانگ میں سہاگ کا سِندھور ہے یا نہیں؟
اِس پر پھر بات ہو گی! آج اختیار کی بات کریں گے! ہائے! لاہور کے نواحی علاقوں کی خاک چھانتے ہوئے خود کو ایک گاوں کا بھیدی پاتا ہوں، ابا میاں کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہوں ، سامنے ایک شخص آیا، روز سامنے آ جانے والے کسی بھی شخص کی طرح ، وہ بھی آ گیا، لایا گیا! پوچھا کیے کہ کون ہو؟ وہ خاموش تھا، ساتھ والے نے بتایا ، جی بابُو ، “یہ اختیار” ہے!! کیا وہ “اِختیار” ہی تھا صاحب؟ ہم نے بتانے والے سے پوچھا تم کون ہو، کہنے لگا میں “اِمتیاز” ہوں! اِختیار کا بڑا بھائی تھا صاحب! !
جو مانگے گا اختیار، اُس کو ملے گی بھوک! یہ تو تورات نے بھی کہا تھا، انجیل نے اور آپ نے بھی، کہ شجرِ ممنوعہ سے کھانے کے بدل میں ، حوّا، زچگی سہے گی، اور آدم، آدم اپنے خالی ہاتھوں سے بھوک کمائے گا! بھوک کی وجہ سے ہی شجرِ ممنوعہ سے کھائے تھے صاحب! کھانے پر بھی بھوک ہی ملی!!! تو کھانے دیجیے ناں صاحب! سبھی کی طرح دو چار قاشیں ہم بھی لیں لیں! کیا جائے گا! ؟ جا سکتا ہی کیا تھا؟ اور جو جا ہی رہا ہو وہ جا ہی سکتا ہوگا!“ سکنے” کا ہی ” اختیار“ تھا! سکنا! سک سک کر سوکھ گئے ہیں، سوکھ کر کانٹا ہو گئے ہیں، ہائے! ہو جانا، اور ہو سکنا میں ، ہونا لازمی ہے، ہونے کا ہی اختیار تھا!
حالاں کہ ، مانگا تو اختیار تھا، اور کھول کر دیکھا ، اختیار، تو اپنی بھوک کا احساس ہوا! ہونے کا احساس، بھوکے ہونے کے احساس کو بھی ساتھ لاتا ہے.. اِسی لیے تو سبھی بھوکے تھے صاحب! ہمیں ہر کسی کو دیکھ کر ، بھوک کا ہی احساس ہوا۔ بھوکوں کی منڈی.. بھونک اور بھوک میں “ن” ہے صاحب! پروفیسر احمد رفیق فرماتے ہیں “ن” نفس کا ہے، یعنی مختون ہونا چاہیے! ن نفس کی تربیت کی جائے ! تو ہم نے جس بھی کتے کو بھونکتے پایا ، اپنے نفس کا سا گمان ہوا! نفس کو صوفیا نے “کتا” کہا ہے ! ہم نے مان لیا صاحب!
بس تو صاحب، کتوں کی تاریخ، نسل، ذات برادری کو جان کر کہتے ہیں کہ کتے کتے میں بھی فرق ہے، اور ایسے ہی نفس نفس میں بھی فرق ہے! اور ساتھ یہ بھی بتلا دیں کہ ہر ہر کتے کی طرح ہر نفس کی تربیت ، خوارک، مزاج اور بھونک بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے! لہذا کتوں میں اشرف و مشرف کتے بھی ہیں اور آوارہ و بیمار بھی! یہی حال نفس پر بھی وارد ہوتا ہے ، کہ اپنے آپ کو آواروں میں آوارہ اور مخدوموں میں مخدوم پاتا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھ لیجیے کہ کیسے کیسے صدمے سے دو چار کتے بھی کسی چمکار سے سدھر جاتے ہیں! ہم نہ سُدھرے صاحب!
ہم پر وحشتِ ازل تھی! وہی ازل کی وحشت ، جس کے وحُوش کیا کریں؟ ہوش کہاں سے لائیں؟ ذرا سوچیے ناں کہ جس کے بھائی بند آپ کی گاڑی کے نیچے آ کر کچلے گئے ہوں! وہ پِلّا کیوں کر شہر کا رُخ کرے؟ شہر میں بھوکوں کی منڈی ہے ! ہر طرف بھوکے بیٹھے تھے، ہم پوچھا کیے کہ یہ جگہ کیا ہے، فرمایا “غلہ” منڈی ہے، سبزی منڈی، گوال منڈی، منڈیاں ہی منڈیاں .. بھوک ہی بھوک! یہ کیا ہو رہا ہے میرے خدا؟ اتنی بھوک ، اتنی بھونک ! اور ن نفس کی نحوست! وہ بھاگ جائے گا۔ میں بھاگ گیا تھا صاحب! کہ اختیار میں “باگھ” تھے، ہماری “ھ” لکھت میں بھی پڑھت کی طرح پیچیدہ ہے! خیر، بھوک تو ہے ہی ہے، تو کیوں ناں بھونک ہی لیں! بھوک اور بھونک کے درمیان نفس ، نفسِ نفیس ہو جائے! کافی ہے!