Skip to content

نشست اول: عشق بِن یہ ادب نہیں آتا

جی تو صاحب! آج چاہتے تو تھے کہ باضابطہ خطاب کریں، لیکن کیا ہے کہ خطیب ہرگز نہیں ہیں، مزاج مخاطبانہ نہیں! مودبانہ ضرور ہے۔ کل ایک صاحب فرمایا کیے کہ آپ نے اجازت کیوں طلب کی، میرا مطلب ہے مخاطب ہونے کی، آپ “ڈائیرکٹ” لکھ دیتے، یا لکھنا شروع کر دیتے! اب پھر وہی مسئلہ ہے کہ ہم مخاطبانہ نہیں مودبانہ انداز رکھتے ہیں! اور مودب میں ادب کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ میؔر فرما گئے تھے کہ ؎ دور بیٹھا غبارِ میر اُن سے! عشق بِن یہ ادب نہیں آتا! ہم کو ” ادب“ آ گیا تھا صاحب! آ چکا ہے صاحب! مطلب ہم آپ کے ایسے عاشق ہوئے کہ مودب ہو گئے! اور ایسے مودب ہوئے کہ غبار کا “بار” تک نہ چھوڑا، اپنا بار ِ بے قرار اُٹھا وطن سے بھی دور بیٹھ گئے! خیر، اب آپ کہیں کہ کہ بھائی میاں، کون سا وطن، کیسا وطن!؟ تو آپ کی بات بھی ٹھیک ہے! مگر کیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں، ہماری بات بھی ٹھیک ہے! ایسا کہنا چاہتے ہیں ، مگر پھر، کہیں سے آواز آتی ہے” ٹھیک” تو سر کچھ بھی نہیں ہے!! یہ سن کر کہتا ہوں کہ واقعی بات تو یہ بھی ٹھیک ہے! مطلب غلط کے ہتھوڑے سے ، ہر چیز پر ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، کی چوٹ لگ رہی ہے۔ لگائی جا رہی ہے! ہم دیکھتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بھی ٹھیک ہے!!!! تو یہ سب سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ، جب ٹھیک ہی ہے، تو اِس کو بھی کہنے کی زحمت کیوں کر!

ٹھیک ہے تو ٹھیک ہی ہے!

اب اگر ہم پوچھیں کہ آپ کیسے ہیں؟ تو کہیں گے، “ٹھیک” ہیں! لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ٹھیک ہیں؟ خوش ہیں؟ برقرار ہیں؟ قائم ہیں؟ کہاں تک ہیں؟ کیوں ہیں؟ کہاں ہیں یا لامکاں ہیں یا میں ہیں؟ تک کا مکمل جواب ٹھیک ہی ہوگا؟ یا ٹھیک کی دونوں آنکھوں میں خرابے اور غلط ملط کی ایک گونج ہے، کہ میں “ٹھیک “ نہیں ہوں۔ بلکہ “پریشان” ہوں! افسردہ ہوں، اکیلا ہوں، ہونے یا نہ ہونے سے دوچار ہوں، سے پھیلتا ہوا، “ہوں” تک گونجتا سنائی دیتا ہے! ہم سن کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہی ہو ناں! تو پھر “ہو” ناں! “ہوں” اور “ہو” کے مابین نون غنہ کیا ہے؟ کیوں ہے!!! آج اِسی پر بات کی جائے گی، کلام کیا جائے گا، لیکن خطاب ہرگز نہ کیا جائے گا۔ کہ خطاب اور خطیب کی افراط بہت ہے! ہم متحمل نہ ہو سکے! ایسی افراط میں ہم خود کو ٹریفک میں پھنسے کوئی زخمی پِلّے پاتے ہیں۔ ہم پر بوچھاڑ کی گئی صاحب! لفظوں کی، آوازوں کی! روایتوں کی! بلا وجہ کی عداوتوں کی! کیا ہے کہ زخما گئے ہیں، اُس حالت میں بیچ بارش کے، بِلبلا رہے ہیں ، بھونک نہیں سکتے! کہ مزاج میں بھونک نہیں پائی، بھیک پائی ہے صاحب! وہی سگ ہوں! جو “ہو” اور “ہوں” کے مابین بِلبلاتا ہے اور جس کے گلے میں “ہے” کی گھنٹی بندھی ہے، ہے ہے ہے ہے ! بلکتا ہے صاحب! اِس سے بڑھ کر نہیں! پِلّہ ہے، ماریے مت ، کاٹیے مت !

چمکاریے، دست ِ شفقت فرمائیے ! تو خیر ہم عرض کر رہے تھے، کہ خطیب تو شاہ بھی ہو سکتے ہیں اور بخاری بھی ، اور عطا بھی، ہم عطا اللہ شاہ بخاری والے خطیب نہیں ہیں ! کوئی سے بھی خطیب نہیں ہیں ، ہمارے پاس موجود تو “خ” بھی خطا والی ہے۔ خ ، خطا! خ، خدا! ہائے ہماری “خ” ڈھمگا گئی ہے، ہم تو عرض کرتے ہیں، بنتی کرتے ہیں، ہاتھ جوڑے ہیں، پیر پکڑے ہیں ۔ آپ کاہے ہم سے دامن بچائے ہیں! فرمانے لگے کہ آپ بھی بھونکا کیجیے، اجازت کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے آپ کو! جب اِس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ہم سے نہ بن پایا تو ہم کیا کرتے، پھر بلکنے لگے! تو فرمانے لگے کہ وہاں ، یعنی یہاں، فیس بک پر لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ! وہاں تو لوگ میسٹربیٹ کرنے آتے ہیں! اپنے تفاخر سے ہارن بجاتے ہیں، یہاں وہاں کوڑا پھینکے ہیں! زمین پر شیشے بکھرے پڑے ہیں اور تم! ایک بلکتے کتے کی طرح منہ میں ” ہے“ کی ہڈی دبائے فیس بک پر کیا لینے گئے ہو! الغرض اُن کی دھتکار بھی مجھے ٹریفک، اسپیکروں ، ریڈیو، ٹی وی .. الغرض جملہ برقی اور نیم برقی، انسانی اور غیر مرّئی آوازوں کے شور خرابے میں کان پڑی! پَلے کے ایک لات اور پڑی! کیوں نہیں چھوڑتا “ہے” کی ہڈی؟ ارے صاحب کیوں غراتے ہیں، خطبہ کیوں دیتے ہیں؟ کیا ہے کہ پِلّا پہلے ہی لہولہان ہے!

اب لہو باقی کہاں بچا تھا کہ لہان ہوتا، اب تو آن بہ آن ہے! آج کے لیے “آن” ہی ہے! آن مبارک ہو! آنا مبارک ہو! سب ساتھی بھائی ساتھ ساتھ ہو کر بیٹھ جائیں! آپ بھی تشریف رکھیں! گاڑی مل جائے گی! آج شو نہیں ہو گا، آج ہماری “خ” خراب ہو گئی ہے!

اللہ حافظ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے