ہم نے خود کو زمستانِ انقرہ میں بھی ایسے ہی پایا تھا، اور یہاں شہرِ بَون میں بھی ویسے ہی پایا تھا۔ یعنی، ایسے اور ویسے ہی.. ویسے ایسے ہو جاتا تو ایسے کتنا ویسے ہو جاتا.. ہم سمجھے ہیں کہ الف کو جھکا دیا جائے تو “واو” بن جاتی ہے، باقی” یَسّ ائے”!! صاحب سب یس ہی ہے۔ YES کائنات کی ہر چیز کو ہم نے حالتِ یس میں پایا ہے! کیا یہ تسبیح نہیں ہے؟ جو زمین و آسمان میں جاری ہے، ہر موجود ، میں حاضر ہوں! لبیک لبیک میرے صاحب میں حاضر ہوں کہتا ہوا سر بہ سجود ہے! لیکن کیا ہے کہ کبیر داس یاد آ گئے، فرماتے ہیں
کہن سنن کی ہے نہیں ، دیکھا دیکھی بات!
دلہا دلہن مل گئے، پھیکی پڑی بارات!
ویسے بارات میں “برات” کتنی ہے؟ یہ تو رات ہی بتا سکتی ہے صاحب! وہی رات جو “ب” کے “ساتھ” ہو، جیسے “بِ اسمِ اللہ، اللہ کے نام کے ساتھ! یا پھر کہہ لیجیے کہ اللہ کے نام “سے”، سین سے، سے، اور سے ساتھ! ہائے ، سیہ سیہ ساتھ! خیر، ساتھ پہ اٹکنا آج ممکن نہیں، کیوں کہ آج تو وہ رات ہے جو ساتھ ہے! جسے رات کی چادر مل جائے اُس نے دن کا سائباں کیوں اپنانا.. رات میں اپنائیت ہے! اپنی اپنی سی لگتی ہے! جس کو رات میں قرار آ جائے، یا جس کی رات کو قرار آ جائے ! وہ سب یہاں آ جائیں، جی ، اِس طرف، ہاں جی جہاں رات ہے، جہاں جہاں رات ہے اُس طرف آ جائیں ، قریب قریب ہو جائیں ..
رات جہاں بھی ہے وہ ہماری ہی ہے! موسموں کی گردشیں ہیں، چار سُو مہوشیں ہیں! مہوِش میں بھی ہوش کو “مے” کی لت لگ جاتی ہے، ہوش کو بے ہوش کو، مہ ہوش کرو! اِنہیں کچھ تواضع کرو! لنگر ضروری ہے! ہائے! ہمیں تو کہاں کہیں سے کچھ کھانے کو ملا، داتا کا ہی جانا ہے۔ اب ہو گیا ناں مسئلہ شروع! کہ "داتا” سے لکھاری کی کیا مراد ہو گی؟ داتا تو کوئی بھی دینے والا ہو سکتا ہے، ایک نے رائے پیش کی۔ دوسرا کہنے لگا کہ نہیں نہیں مراد داتا صاحب ہوں گے، لاہور والے! تیسرا کہے کہ نہیں نہیں لاہور کے ہوں یا پشور کے، داتا صرف خداوند ہی ہے! ایک بولا یہ لین دین کی باتیں بند کرو! پڑھنے والوں میں ایک نے “لین دین” کو ژرف نگاہی کی اور بولا کہ یہاں “دین” سے مراد “دِین” ہے! اِتنے میں “لین دین” کا لنگر آ گیا! کر لیجیے!