ایک تو تھے اسد اللہ خان غالب، کہ زبانِ معلیٰ کے شیخ اکبر ہیں۔ ایک ہمارے اسد شعیب ہیں! ہم نے مرزا کے اشعار میں سے بہت سے اشعار اُنہی کی سر پرستی میں سمجھے۔ جیسا کہ ، فرمایا، ؎ ہستی کہ فریب میں مت آ جائیو اسدؔ! بہ خدا ہم نے یہاں بھی مراد و منشا اسد شعیب صاحب کو ہی لیا۔ کیا ہے کہ مراد و منشا، میرا مطلب ہے میاں منشا صاحب سے ہمارا تعلق نہیں ہے، ہمارا تو کسی منشی سے بھی واسطہ نہیں پڑا! جن کا پالا کسی منشی سے پڑا ہو، وہی اُس کا منشا بھی سمجھ سکتے ہونگے!
ہم نے تو جو بھی گوشوارہ دیکھا، خسارہ ہی دیکھا۔ ابھی پٹوارخانے میں آئے ہیں! خیر، پٹوار کا تو علم نہیں "خانے” ضرور ہیں، اور تعجب کی بات دیکھیے کہ جس خانے کو بھی کھولا، خانہ، خراب ہی نکلا! یا یوں کہیے کہ ہمارے حصے میں جو خانے آئے تھے وہ خراب ہی تھے! خراب کو کوئی کیسے ٹھیک کر سکتا ہے؟ خراب اور ٹھیک کے درمیان جو خ خلیج ہے وہ پار کرنا کس کے بس کی بات ہے؟ تو صاحب، آپ کو بتائے دیتے ہیں، یہ کام ہمارے اسد شعیب صاحب کا ہے! پوچھیے گا کہ وہ کیوں؟
تو ہم بتاتے ہیں کہ وادیِ مدین میں ریوڑ ہوں نہ ہوں! شعیب تو ہیں! اور یہ تو اسد بھی ہیں، تو ایسا اسد جو ہر شعب سے شعیب بن کر اترے ، وہ بھی اُتر چکے ہیں! ہمارے ساتھ ہی اُترے اُس خ خلیج میں، اور اب باقائدہ ہو رہے ہیں! وہ تو ہو رہے ہیں، ہوتے ہی رہیں گے! لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟ تو ہم اتنا بتاتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ہونے کی، سب کے ہونے کی شہادت دیتے ہیں! حق حق حق کا دم بھرتے ہیں! جو ہے وہ "ہے” اور جو نہیں ہے، وہ بھی "ہے”۔ ہے کی ہڈی حلق میں اٹک جائے تو بگلا کیا کرے؟ پگلا کیا کرے؟
شہادت دے! "ہے” کی، ہڈی کی، جو اٹک چکی ہے! ہے!
جی، سب ساتھی بھائی قریب قریب بیٹھ جائیے درس شروع ہونے لگا ہے۔ خیر درس سے یاد آیا، کہ کسی صاحب کی پہلی اور آخری شادی ہوئی، شبِ زفاف حجرہ عروسی میں داخل ہوئے۔ نویلی دلہن کو دیکھا تو سٹھیا گئے ، فرمانے لگے کہ ہمیشہ بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں سے پیار کرنا، سچ بولنا، وغیرہ، وغیرہ ! نویلی دلہنیا سے رہا نہ گیا، اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر موجود شائقین کو کہنے لگی آپ سب بھی اندر آ جائیے ، اندر "درس” ہو رہا ہے۔ تو ہمارے پیارے اسد شعیب صاحب خود مدّرس ہیں، لیکن آج کل "درس” لے رہے ہیں.. چلیے ، ہم بھی دیکھیں، کس روز دروازہ کھول کر کہیں گے، کہ آپ سب بھی "اندر” آجائیے .. اندر "درس” ہو رہا ہے!! ریفرنس کے لیے درس ہے اندرررر