پھر وہی حکمِ اشک باری ہے! پھر وہی زندگی ہماری ہے
اب دیکھیے ناں صاحب! کہ موسموں کی شہادت دیتا ایک ناظرِ محض! کیا کرتا، سراہتا!! سراہ ہی تو رہے ہیں، کراہ ہی تو رہے ہیں.. . . اب ہمارا کراہنا، کوئی کیوں نہ سراہنا سمجھے؟ کیسے سمجھے؟ سمجھنا مشکل عمل ہے اور سمجھانا اور بھی دُشوار! کیا کیا جاتا؟ بلک کر دیکھ لیا، مگر کب تک بلکتے رہیں گے! اب کہ خود کو ماں کی چھاتی سے لگا کوئی شِیر خوار پاتا ہوں.. شیر کی، شیرینی کی خواری میں خوار ہوتا کوئی شیر خوار! اب آپ کہیں گے کہ شیر، یا شیر، اور شِیر سے مراد کیا دودھ ہے یا شِیرینی ہے؟ مطلب حلوات میں عداوت ہے یا عداوت میں حلاوت ہے! ہم کہتے ہیں عدو میں بھی حلو ہو تو غلو کیسا!
تو صاحب جسے ماں کی چھاتیاں نصیب ہوں ، ہو جائیں، وہ مُوا کیوں بلکے! ہم نہیں بلکے! ہم خاموش ہو گئے! صرف خاموش ہو جاتے تو اور بات تھی، صاحب ! ہم سہم گئے! سہم کر خاموش ہو گئے! ہمیں تو سراہٹ بھی سرسراہٹ جیسی سناٹا ملی! سناٹا تھا صاحب! چاروں طرف خاموش سناٹا! جس میں یہ گیت گوئیے گونج رہے ہیں! نہ طُول و عرض ہے نہ عرض و اعراض! استاذ بِشر الحافی کو ہم نے مشائخ میں قبو ل کیا، اور اِسمِ حافی سے عقیدت سی ہو گئی.. آپ تو جانے ہی ہوں گے کہ “حافی” پا برہنہ کو کہتے ہیں.. صاحب پا برہنہ کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ برہنگی کا نہیں ہے، مسئلہ پیر کے پیدل کا نہیں، عقل کے پیدل کا ہے! ہمیں حافی عقل سے پیدل ملا صاحب! حافی، شافی یا شافعی ہو جائے ! جی سب آمین کہیں! وہ بولے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ حافی سے! ہم نے عرض کی یہ والے “بِشر” نہیں ہیں، شر ہیں! شِیر نہیں، شریر ہیں! یا شاید “پروفیشنل “،جیلسی ہے! اب پروفیشنل میں بھی “شین” آتا ہے! ہائے شین شرارت کر رہا ہے ! صاحب، “شین” آتا ہے، لیکن “شیم” کیوں آتی ہے! اِس بارے میں مزید جاننے کے لیے ہماری کتاب “نین نوا” پڑھ لیجیے!
“ شیم “ آئی صاحب ! لیکن “محمل” قبو ل نہیں کیا تھا! جس کو دن میں سرہانہ نہ ملے اُسے رات کے لحاف بے اثر! بچھونہ، بچھووں سے بھرا تھا، اِس سے سن چھیانوے کی “بچھو” فلم شاید آ گئی صاحب! اُس کا ایک گیت تھا، ؎ جیون میں جانِ جاناں اِک بار ہوتا پیار” ، ہائے صاحب! آپ کو جانِ جاناں کہہ رہے تھے، یا ہمیں ایسے لگا آپ ہمی سے مخاطب تھے، ہمیں عالمِ فانی میں کچھ بھی جاذب نہ لگا تھا صاحب! بے رنگ تھا عالمِ رنگ و بو! پھر جِسے آپ کی جستجو ہو جائے وہ رنگ و بُو سے کیا جی بہلائے.. وہ تو کراہتے ہوئے سراہ رہا ہے! پوچھے کہ کراہت کیسی ، تھکن کیسی ، چُور کیوں ہو؟ تو جون صاحب یاد آ جاتے ہیں
فرمایا: ائے شخص تیری تلاش میں میں ، ہارا نہیں ہوں تھک گیا ہوں! وہی تھکن لاحق ہے! لاینحل ہے! پہلا قدم ہے، بڑی مشکل ہے! ہم بھی حافی ہیں، ہمیں کافی ہو جا! کہ آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہوگا کہ وادیاں ہیں، نگار ہیں، یہاں وہاں ہونے کی رونقیں ہیں.. کیا واقعی ہیں؟ اور جو ہیں وہ” رونقیں” ہیں؟ اب کہ خود کو میلہ شاہ بخاری میں پاتا ہوں. . دائیں بائیں سے کُودتے افراد! بچے، بچونگڑے، جوان باولے، سبھی کُود رہے تھے صاحب!
ہم دیکھا کیے! تعجب سے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا میلہ ہے! ہم نے اُس میلے میں بھی میم میل کی دعا کی تھی صاحب! موت کا کنواں دیکھیے صاحب! اُس میں موٹر سائیکل کی پسلیوں پر کوئی ہیولہ گھوم رہا تھا! خوب دھکم پیل ہو رہی تھی صاحب! ہمارے ننھے پیر دَب گئے صاحب! ہم میلے سے تھک گئے تھے صاحب! کیا ہوا جو رو دیے، کیا ہوا جو روتے ہیں، غالب روئے، میر روئے، فیض روئے، جون روئے، تو ہم کو رونے سے کیا لوبھ! ہم کو دیوانگی سے کیسا خوف! سہمے ہوئے ہیں، قدم لڑکھڑاتے ہیں، صاف صراطِ مستقیم پر مستقیم ہو جائے آدمی، مقیم ہو جائے، میم سے میل ہے، تو میم سے ہی مقیم بھی ہے، میم مسکین ہے، روز کام پر آتی ہے، ہائے خدایا، کام میں بھی میم ہے.. یہ ہائے ہو، یہ آہ و زاری ، اشکباری اِسی بار واسطے ہے، آپ واسطے ہیں. . تبھی کراہتے ہیں، لیکن سراہتے ہیں!
کیا ہے صاحب! فرد تنہائی کا مارا ہے، اور فرد کو جدائی کا خوف ہے! واصف صاحب نے فرمایا، “تنہائیوں کے میلے لگے ہیں” ہم کہتے ہیں میلے میں تنہائیاں سجی ہیں، ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتی تنہائیاں.. ایک دوسرے کو کچلتی، مسلتی تنہائیاں! لیکن آج ، آج ہم کیا بات کریں! آج تو لفظوں کی تنہائیوں میں تناو ہے، آج بہت رکھ رکھاو ہے! آج جدا ہو جاتے ہیں! آج جدائی پر بات کرتے ہیں، (ویسے جدائی اور خدائی میں بھی نکتے ہی کی ہیر پھیر ہے)، نکتہ ، ہائے ، میرا نکتہ، وہی جو چچا جان نے سِن چھیانوے میں سمن آباد میں بتایا تھا، وہی شعر،
؎ ہم دعا لکھتے رہے، وہ دغا پڑھتے رہے
اِک نکتے نہ محرم سے مجرم بنا دیا
اُس دن سے خود کو جرمِ وفا کار کہتا ہوں! اُس روز سے ہر ہر نکتے کی چھان بین کرتے رہے صاحب! احرام اور اہرام میں ، تو کبھی اجرام میں ، سب لفظوں کی، نکات کی سینہ تانی ہے، آنکھ مچولی ہے۔ آج کہتے ہیں”؎ نکتہ گر ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے .. سنائے نہیں بنتی تھی صاحب! بتائے نہیں بنتی تھی! نکتہ گری شیشہ گری ہی تھی! کہ جس میں سانس کی نازکی ملحوظِ خاطر ہو تو لب کشائی کیا کی جائے .. سو بھائی مجرم ، ہم جانے ہیں محرم ہو، ابھی چلے جاو محّرم میں آنا!!!!! تب میم مجرم کی میم مجلس ہو گی! لیکن یاد رہے ، پیٹنا نہیں، صرف کراہنا ہے، اِس سے بڑھ کر نہیں! سو ہائے، ہُو، کر رہے ہیں، کراہ رہے ہیں!