فرمایا پہلے تصورِ شیخ درست کرو! ہمیں شیخ شیخانے ملے، مست تو تھے ہی مستانے بھی ملے! دانے دیوانے ملے! ایسے میں واصف صاحب کی شاعری پڑھ رہا ہوں لڑکپن کا بانکپن ہے، فرمائے؛
؎ ہر چہرے میں نظر آتی ہے یار کی صورت
احباب کی صورت ہو یا اغیار کی صورت
ہر چہرے میں ایک ہی صورت تھی اور ایک صورت میں کیسے کیسے چہرے پوشیدہ تھے!
؎ تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صور ت
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں
آپ کچھ ترمیم سے پڑھتے، دوسرہ مصرع کچھ یوں کہتے؛
ہم جہاں میں تیری تصویر بنے پھرتے ہیں
بنانے والا آذر کا الف ہو تو ب کے بت ہی بنیں گے! آپ سوچنے لگے، فرمائے تصورِ شیخ سے سو مشکلات کا حل نکل آتا ہے۔ جو قافلے کے ساتھ ساتھ خستہ پا، سوزِ جنوں پیش رو تھا، وہ کون تھا؟ کون تھا وہ جس نے لگام کو لبِ بام کہا، یا نکیل کو شکیل سمجھا؟ فرمایا حاضرات کے جملہ عوامل ہیں یا نہیں؟ کچھ بھی رائے دینا فوق العقل ہے، البتہ تصورِ شیخ کے کیا کہنے! اب کے بار چچا جان کے پاس آیا ہوں ایک برس بعد ملاقات ہوئی، قونیہؔ سے مولانا رومؔ کا تبرک پیش کیا اور نصرت فتح علیؔ خان صاحب کی آواز میں سماں کا منظر ہے …
دم دم سجنا دا ناں نکلے
ایہو اصل عبادت ہُوندی اَئے
مکھ تکنا یار پیارے دا
عاشق دی تلاوت ہُوندی ائے
جی بھر کے روئے صاحب! ہم سے ملنے والا ہر کوئی رویا تھا صاحب! یا مسکرایا ، یا فرطِ جذبات میں رو دِیا! اب کے بابا جی کے رخساروں سے آنسو پونجھ رہا ہوں ، آپ کہے عاشق ہو تو یقیناً تلاوت کرتے ہو گے! تصورِ شیخ میں عمر گزر گئی صاحب! تصور ہی تصور تھے! صورتیں ہی صورتیں! اب کے انقرہ میں ایک درویش خانے میں قیام ہے، ایک صوفیِ باصفا نمازِ فجر میں ہمیں بھی لے گیا!
نماز کے بعد دوزانوں آنکھیں بند کیے ، سر جھکائے بیٹھا ہے! ہم انتظار کرتے رہے ، بلا آخر اُس کی حالت میں خلل ڈالا اور پوچھے ، کیا ہو رہا ہے؟ پرس سے اپنے شیخ کی فوٹو نکال کر دکھائی اور کہنے لگا میرے شیخ ہیں میں اِن کے بارے میں سوچ رہا ہوں! اُن کا تصور کر کے بیٹھتے ہیں ہم!
ارے بہاالدین نقشبند کی طریقت سے ہو، بایزید کے خانوادے سے ہو، باقی باللہؔ کی لڑی سے ہو، تو ب سے بھاگتے کیوں ہو! ب بن جاو! اُسے لالہ موجی رامؔ جی کا شعر سنائے؛
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
آہ! صاحب، اب کہ نوخیز ہوں اور ابامیاںؔ کے ساتھ اُن کے مرشد سیدنا طاہر علاؤ الدین قاؔدری کے مزار پر ہیں ، ابا میاںؔ بعد از تلاوت بیٹھے ہیں ، اور بیٹھے ہیں ! ہم بھی بیٹھ گئے ، تسبیحات کے بعد جب پلٹے تو فرمائے یہی شعر کچھ اِس طرح سے پڑھتے سنائی دیے ؛
؎ دل میں ہے تصویر یار کی
ذرا نظر جھکائی دیکھ لی
ابامیاںؔ نظر بھی جھکاتے تھے صاحب! ہم تب سے یہی سوچ رہے ہیں کہ کس کو دیکھتے ہوں گے؟