Skip to content

138.ق قوسِ قُزح!

قوس قزح

لکھو! قوسِ قَزا!
ظاہر ہے ، اِملا! چل رہی تھی!
ٹاٹ بچھے ہیں اور جاڑے کی ایک گلابی صبح ہے، ہم جماعت قطار اندر قطار بیٹھے ہیں اور املا ہو رہی ہے! وہی اِملا!
جی صاحب! وہی سُن کر لکھنے والا! کیا سُنے کو دیکھے گا نہیں؟ فرمایا حواسِ انسانی میں بھی تخصیص و ترتیب لازمی ہے! سبب یہ ہے کہ “قوتِ عاقلہ کام ہی درجہ بندی کرنا ہے! توبہ تھی صاحب!
توبہ ہے صاحب!
لہذا! اہلِ اعتزال کے یہاں سماعت پر بصارت کو  اور صوفیا کے یہاں ، بصارت پر بصیرت کو فضیلت حاصل تھی۔ فضیلت بھی ایک طرح کی درجہ بندی ہی تھی! خیر ہماراپوچھنا پھر وہی کہ سُنے کو لکھنے والے نے ،کیا دیکھا نہ ہوگا؟ دیکھنا  اور دیکھ کر لکھنے میں، آہ صاحب!
آپ جان گئے کہ دیکھ کر لکھنے اور دیکھ دیکھ کر لکھنے میں جو کوئی بھی فرق ہے، وہ “ ریکھا” کا ہے!
آہ صاحب!
اب کہ ابا میاں کے جفاکش ہاتھوں کو دیکھے ہیں! وہ سخاوت سے بھرپور ہتھیلیاں!
وہ پہیلیاں!
ہم بُوجھا کیے تھے صاحب! ابا میاں کہنے لگے ، ایک ایک ریکھ کو دیکھ کر بتاو بیٹا، کیا دیکھتے ہو؟
برج قوس!
کوکب…کشت و قضا را بہانہ ؛

اقبال بانو کی آواز میں

ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت

(اس نے مجھے غمزہ سے مار ڈالا اور قضا کا بہانہ بنایا
اس نے میری طرف نہیں دیکھا اور حیا کا بہانہ بنایا..)

مارا بہ غمزہ کشت و قضارا.. قوسِ قزح و قزا! ق دیکھتا ہوں..

کشت و قضا! آپ کاف مسکرائے !

مِس طیّبہ نے چھڑی پکڑی ہوئی ہے اور کہتی ہیں لکھو، “قوسِ قَزا” ،
آہ صاحب کسی طفلِ مکتب نے دیکھی ہی نہیں تھی! لکھتے کیسے؟
نہ دیکھ سکنے والے کے لیے، آپ فرمائے حکم یہی ہے کہ سُنے پر ایمان لائے اور ٹھیک ٹھیک سے لکھے!
ہم دیکھا کیے صاحب! قوسِ نیلگوں سے فلکِ اوّل تک پھیلی اور قاف کی قضا کو..!
آدمی کو ملے میم سانچوں سے ! اترتی ہر ہر قضا کو دیکھا کیے، اُس ٹاٹ کے بوریے کو ، اُس ہوتے ہوئے ہوجانے والے ہوریے کو!
سُنتا کیے، دیکھا کیے !
کل قوس دیکھی، قُزح بھی اور یہ کاف کلیسا بھی!
آہ صاحب!

قوسِ قضا! مبارک
ادا مبارک! وفا مبارک