اویس!
ایسا، نہیں تھا!
"ویسا؟” آپ نے آواز دی!
ہم نے جھٹ سے جدول سنبھالا، تول کر دیکھا تو لکھا نام،”اویس”تھا!
وے ، ویسیا! آپ نے پھر پکارا! نام اب بھی "اویس” ہی تھا!
لکھت اور پڑھت میں. . . آپ پوچھے، ج کے جھول کو جانتا کون تھا؟
اور جاننا تو جان کا جوکھ ہے ہی، جھول کو مانتا کون تھا؟
مان ، مان، اور پھر مان کر جان! ہم سمجھ گئے،
اتنے میں آپ نے تن کو تین سے مان دی،
مان ، میان اور میزان پر ایمان!
امان! امان! کیا کہنے!
پھر فرمائے آج میم ، تسلیم کی تھی!
تو سنیے ناں صاحب! سر سے پیر کو، تین تسلیم کی گرہ دیے جو بیٹھا تھا یہ وہی کہتا ہے کہ لکھت اور پڑھت میں آدمی کو بد بختی لاحق ہوئی! اور یہ بھی کہ خداوند نے جب بابل کے اُس مینارے کو چٹیل کیا تھا تو حکم دیا تھا کہ اِن شریرزادوں کو ایسا مہمل کر دینا کہ ایک دوسرے کو سمجھ نہ سکیں !
یہ نہ سمجھی ہی تو خداوند کا عذاب ہے!
(باب پیدائش، 11,1-9)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آہ صاحب!
عذاب در عذاب !
باپ کا عذاب !
توبہ ہے صاحب! پاپ در پاپ!
پھر پوچھے کہ لکھے کو پڑھے جانے پر فوقیت کیوں ہے؟
آج اِسی پر بیچار کیے اور پھڑپھڑنے والے کی زبان میں ارتعاش محسوس کیے،
ہر "کاش”، آپ نے محبت سے دیکھا اور فرمائے، ایک اِرتعاش ہی تو ہوتا ہے، ربِ کریم کے حضور، کاش کا ارتعاش بھی مکرّم نہیں ہے۔
ہر طرف ادا ہوتے لفظوں کے ارتعاش، لفظ ہی لفظ، آوازیں ہی آوازیں!
آہ صاحب! سوشل میڈیا پر بھی ، مخلوقات کی آوازیں،
پھڑپھڑا رہی تھیں!
جیسے پوچھو وہ "اویس” ہی کہہ رہا ہے !
ایسی ویسی آوازیں بھی ایک سی کہاں تھیں!
کوئی یہاں سے پڑھ رہا ہے اور کوئی وہاں سے لکھ رہا ہے،
تحریر کے غلط پڑھنے سے اور سُنے کو غلط سمجھنے سے خدا وند نے آدمی کو نابود کیا تھا۔
تو کیا بدن کو لگی تین گرہ میں لرزتا کوئی قلم…!
(حرفِ خطا نہ ہوگا؟)
آہ ! صاحب!
"ایسے” کو "ویسے” پکارنے والا بھی "پکار کا نکھار”جانتا ہے اور مانتا ہے کہ ، ایسا اور ویسا، جو بھی ہو،
ہے تو آپ جیسا ہی!
ایسے ،اویسے!
جیسے اویسے!
۔۔۔۔۔
سین کے ساتوں رنگ بکھرے پڑے تھے!
کتاب اور کتاب کے عذاب!
ہو رہے تھے!
لکھے گئے تھے!
اُسی لکھے کو دہراتا، اُسی قلم کی قاف نوک سے
لفظوں کا سینہ چیر دیتا!
الف ، واو، سین