واہ صاحب! ہماری آہیں واہوں میں بدل ہی رہی تھیں .. ہم جھک ہی رہے تھے ۔
آج جھکتے ہوئے یاد آیا کہ قونیہؔ شریف میں بابا جی سے ملاقات کے بعد ایک روز ہم نے وٹس اَپ کے اسٹیٹس میں لکھا،
؎ ہور وہ نیوا ہو فقیرا
آپ بہت شاد ہوئے کہا بہت خوب!
خوب سے خوب تر، کی تلاش میں نکلا ، وہ حُسن پرست کیا دیکھتا ہے ؟ آپ پوچھا کیے۔
ہمیں جھٹ سے تاریخ کی کسی کتاب میں پڑا سیدہ ذینب سے مروی ایک جملہ یاد آ گیا،
فرمایا؛ Lady Zainab :”I saw nothing but beauty”
(مارأيتُ إلّا جميلا)
ہم نے حُسن کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں !
۔۔۔۔
وہ شاعر کیا دیکھتے؟
وہ کاتب کیا کہتے ؟
ایسے میں نیاز خیالؔوی کا کہا یاد آ گیا؛
دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا
تو نے ہر ہر رنگ سے پردہ کیا ہے
کیا تھا ناں صاحب، آپ نے پردہ!
الفاظ کا پردہ !
وجود کا پردہ !
جب کسی حُسن پرست نے دیکھا تو ، تایا میاں فرمائے ؛
؎ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
داغ دہلؔوی کے شعر کا اُلٹا دم کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں خاموشی کا کیسا حُسن تھا!
ہم پردہ دیکھا کیے !
پردہ شریف سے قصیدہ بُردہ شریف تک ، پڑھتے گئے جھکتے گئے ..درود یاد آتے گئے . . روز یاد آتے رہے ، آج قبلہ طاہر القادری صاحب کی طرف سے آپ کے وجود پر کیسا خوبصورت درود بھیجے .. لیلة القدر کی پُرجمال راتوں میں ہم بھی پڑھا کیے ؛
؎ بصرہُ وما زاغ البصر و ما طغیٰ
حقیقتہُ کعبہ قوسینِ و معرفتة او ادنیٰ
صَلَاةُ الْمِعْرَاج (درودِ معراج) لکھا تھا صاحب!
۔۔۔
معراج کی کروٹوں میں جو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں ، کہ آپ کا نقشِ پا تھا.. آہ سے واہ تھا!
سبحان اللہ تھا. . .
“سُبحان اللہ” کا ورد کرنے سے مؔاں جی نے سمجھایا جنت میں ایک درخت لگتا ہے ! ہم کرنے لگے تو ایک مرتبہ کیا دیکھتے ہیں ابامیاں ؔ اپنے مخصوص وظائف کرتے ہوئے آخر میں کچھ یُوں دعا فرماتے ؛
؎ سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کتھے مہر عؔلی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
۔۔۔نگاہوں کا درود۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ چہروں پر سلامتی۔۔