
آج فرمائے؛ ہر گھات لگانے والا زیرک نہیں ہوتا!
ہم عرض کیے کہ صاحب، گھات لگانے والا زیرک کیسے ہو؟
زیرک تو وہ ہے جو جانتا ہے کہ گھات، گھاتک ،
گھا سے گھا، تک کا ہی معاملہ ہے، وہ سلجھا چکا تھا. . . !
آہ! ہمیں پھر وہی سہ پہر یاد آ گئی، تایا جی کے گھر جاتے ہیں اور اپنی آشفتہ سری میں فیضیؔ سے کہے سماع کا بندوبست کرو! اُس نے افضل نوؔشاہی صاحب کی آواز میں قبلہ طاہر القادریؔ کا کلام چلا دیا ؛
؎ تم بات کرو ہونہ ملاقات کرو ہو
بس اِک ہی نجر میں دل گھات کرو ہو
وہ دل کے گھات ، وہ زُلف سے مات ! وہ چبا کر کھانے والا جانتا تھا کہ صید صیاد میں بات کا جھول نہیں ہے، محض حروف کا طول ہے۔ عالم پناہ ؔ نے رنگون سے تائید کی اور لکھے ؛
؎ بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
ظِلِ سبحانی عالم پناہ بادشاہ سلامت بہادر شاؔہ ظفر بھی ب کی بانہوں میں رہے اور پناہیں بھی مانگیں، تو ب سے ہی مانگا کیے ..
آہ صاحب ایسے میں قتیل لاہوریؔ لپکے ؛
؎ مار بہ غمزہ کشتُ و قضا را بہانہ ساخت
آہ صاحب کوئی ترجمہ پوچھ بیٹھا، آپ جھٹ سے کہے ؛
؎ دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہائے، ہم سمجھ بیٹھے کہ وہ تمنا کا ہونا ، بہانے کا ہونا ہی تھا، اور ہر بہانہ ، ب کا بہانا ہی تو ہے۔
ب بہتی چلے . . .
ب ہوتی رہے !
۔ ۔ ۔ ۔ ۔