فین لینڈ کا دارلحکومت ہیلسنکی دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ یہ شہر، بحیرہ بالطیق کی شمالی خلیج جو خلیج فین لینڈ بھی کہلاتی ہے ، کے کنارے آباد ہے۔ اِس شہر کے دائیں جانب بحیرہ بالطیق (Baltic Sea)کے پار ملکِ ایسٹوؔنیا کا خوبصورت شہر ٹالؔن اور بائیں جانب سویڈن کا دارلحکومت سٹاکؔ ہوم موجود ہیں ۔ شہر کی بنیاد سیوڈن کے شاہ گسٹاوّ واسا نے قریب پندرہ سو پچاس میں رکھی تھی ۔ شاہ کی غرض یہاں سے سر زمین روس تک جانے والے تجارتی مالک کی بھڑوتری اور خلیج کے پار موجود راول نامی شہر(موجودہ ٹالن) کے مقابلے میں ایک نیا قصبہ تعمیر کرنا تھی۔ اِن دونوں شہروں کے ساتھ ایک مناسبت اور رقابت کے سے انداز میں پھلتا پھولتا شہر ہیلسنکی! پہلی مرتبہ مجھے آج سے چھے برس پہلے یہاں آنے کا موقع ملا۔ اِس شہر نے جدید دور کے مطابق اپنے آپ کو سیاحوں اور زائیرین کے لیے دلچسپ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اِس خاطر سے شہر میں فن ، صنعت اور ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے میوزیم، نگار خانے اور کتب خانے، تاریخی عمارتیں اور جدید طرز کے کاروباری مراکز ، نادر انواع کی حیاتیات ، باغات اور بیسیوں پروگرامز اور مختلف کھیلوں کے مشاغل سال بھر میں منعقد کیے جاتے ہیں۔
فین لینڈ ، روس اور سوڈین جیسی سلطنتوں کے درمیان اپنا تشخص برقرار رکھنے کا جیسے ابتدا سے ہی عزم کیے تھا، جبھی تو روس سے لڑی جنگوں کے باوجود معادے کیے گیے اور ہیلسنکی قریب دو سو برس سے ملک اور لوگوں کی تہذیب کا مرکز بنا رہا اورگزشتہ ایک سو سال سے فین لینڈ کی آزادی کے ساتھ ہی ملک کا دارلحکومت بنا رہا۔ خط سرطان سے بالا اور قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ایک پاکستانی کو دیکھنے میں دو ہی موسم ملیں ملتے ہیں، ایک شدید سردی کا موسم اور دوسرا گلابی جاڑوں کا ، جن میں دن کی روشنی ہفتوں افق پر برقرار رہتی ہے اور سورج ڈھل جائے بھی تو ڈوبے نہیں پاتا ۔ میرا جانا عین اِنہی دونوں موسموں کے درمیان میں ہوا۔ یعنی قطبی ہواوں کی تلخی بھی دیکھی اور باغ باغیچوں اور لبِ راہ لگی گھاس سے نئی کونپلیں پھوٹتی بھی دیکھی .. اور ویسے بھی میری روداد کوئی سفر نامہ تو تھا نہیں کہ واقعات کی ترتیب کے ساتھ بیان کی تمیز ملحوظ خاطر رکھی جاتی یہ تو آوار نامہ ہے صاحب!
جو دیکھا وہ سمجھا نہیں ، جو سمجھا وہ لکھ دیا ہے ۔
یوکرین سے میری فلائٹ یہاں صبح بارہ بجے اتری۔ وطن عزیز کی شناختوں سے رخصت ملی تو آنے کا مقصد پوچھا گیا۔ نیلے کپڑوں میں ملبوس ائرپورٹ پولیس کی خاتون کو میں نے تفریح اور دیرنہ دوست کی زیارت کا سبب بتایا تو اُس نے چند مزید استقبالیہ جملوں کے بعد دروازے کھول دئے ۔ کوئی آئے بھی تو کیوں کر یہاں ، یہ تو یو ں سمجھیے، جیسے یورپ کے اونٹ کی کوہان ہو، آنے جانے کا کوئی سیدھا سادھا راستہ نہیں تھا۔ ہوائی راستوں سے کوئی بھی پرواز اِس شہر میں بلاواسطہ نہیں اُترتی ، ڈاریکٹ آنے والی پروازیں ذیادہ تر شمالی یورپ کے ممالک سے ہی آتی ہیں ۔ ہیلسنکی جیسے یورپ کی انجمن میں ہونے کے باوجود ایک گوشہ نشین اور خود میں ڈوبا ہوا شہر ہے ۔ گو، شہر ایک مستقل اُداسی کی فضا میں رہتا ہے اِسی وجہ سے کوئی معمول کا سیاح اور غیر ملکی شہر میں رنگینی نہیں دیکھ پاتا ۔
شہر کی یاترا ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوئی ، ویسے تو میرا قیام شہر کے نواحی حصے وانتا میں تھا ۔ وانتا سے شہر مرکز آنےپر بس نے مجھے اسٹیشن اُتارا یہ کیسی جگہ ہے میں نے میزبان سے پوچھا۔ آپ آسان بھاشا میں اِسے یہاں کا بھاٹی داتا دربار کہہ لیں اُس نے اپنے اوور کوٹ کو بند کرتے کہا۔ لیکن نہ تو ٹکاٹک کی آوازیں تھیں نہ کہ کٹاکٹ، بھاگتی ہارن بجاتی گاڑیاں ، نہ ہی چیختے مسافر کسی مزار یا مقامات مقدسہ کی سی صورت حال بھی نہ تھی ورنہ صدائیں دیتے بھکاری، آوازیں کستے دیوانے اور آہیں بھرتے مجذوب ہی دکھائی دیتے ۔ تھا تو سامنے جرمن معمار کارل لودوِیگ اینگل (Carl Ludvig Engel) کا تیار کردہ خشتِ پختہ سے بنا ریلوے اسٹیشن کا چہرہ تھا، جس میں لکڑی کے دوہرے دروازے مسافروں کے گزرنے سے جھول رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ اینگلؔ نے نہ صرف مرکزی ریلوے اسٹیشن کا ڈیزائن دیا تھا بلکہ شہر کی کئی ایک عظیم عمارتیں جن میں سینٹ اسکوائر اور ہیلسنکی کا کاتھرڈل بھی شامل ہیں اُسی کے نو کلاسیکی فن تعمیر کا نمونہ ہیں ۔ میرے میزبان راہبر لاہوری ہونے کی وجہ سے نہ صرف شہر پر معلومات دینے لگے بلکہ ہر ہر جگہ کا موازنہ بھی لاہور سے برابر کیے جاتے ۔ کسی کو یہاں کا سادھ گرو کہتے کوئی انہیں قلندر محسوس ہوتا ، کسی رستوراں پر کھاتے عظیم جثہ گورے کو” بٹ صاحب” کہہ دیتے اور یوں میری یاترا میں رنگارنگی بھی آ گئی اور رہی سہی اُداسی اُن کی تیار کردہ نہاری نے دور کر دی ۔
پرانا ڈسٹرکٹ شہر کا مصروف ترین حصہ ہے، یہاں سیمونکاتو شاہراہ پر کامپی چیپل(Kampin kappeli) یعنی خاموشی کا عبادت خانہ موجود ہے۔ کہاں روسی اور فنیِ تاریخ کی عکاس عظیم و شان عمارتیں اور کہاں یہ خاموشی کا معبد، جسے باہر سے دیکھنے والا کسی خاطر میں نہ لائے ۔ نہ بلند قامت مینارے ہیں، نہ ہی گنبد اخضر و احمر۔ نہ صلیبیں سجی ہیں ، نہ ہی ستارہ ِداود کی روشنیاں ہیں۔
ہے تو صرف گیارہ میٹر کا نیم کونی سلنڈر!
خاموشی کے معبد کو فنِی معماروں نے شہر کے حسن ، فطری آہنگ اور جدِت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بنایا۔ عمارت نظر غائر میں دیگر کلیساوں اور مساجدوں کی طرح ہر چند احتشام کا نمونہ نہیں ۔ البتہ تین مختلف قسموں کی لکڑی سے بنائی گئی اِس کی بیضوی دیوار یں اور چھت کو ایسے مادے سے لپیٹا گیا ہے جو نینوٹیکنولوجی کی مدد سے ممکن ہوا۔ یہ جدید لیکن عاجزانہ انداز کی تعمیر عبادت کے مرکزی حال میں شاہراہ سے آنے والی ہر قسم کی آوازوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ لکڑی کی باریک کٹی پٹیوں سے اندورونی اور بیرونی دیوارں ایستادہ ہیں، دروازے راکھ سے اور چھت پلاسٹر بوڈ سے بنائی گئی ہے، اِس کے باوجود اپنے ڈیزائن اور استعمال کے اعتبار سے بالائے مذہب ہونے کے باوجود ایک طرح کا روحانی مرکز ہے ۔ اِس کا مقصد شہر کے ہنگاموں میں چند لمحات کی خاموشی کا ملاحظہ ہے۔ یہ عبادت خانہ کسی خاص مذہب ، مسلک اور جماعت سے واسطہ نہیں ہے ۔ یہ معبد نہ صرف جدید انسان کی سادگی بلکہ ماحولیاتی ہم آہنگی اور مذہبی انکساری کا بھی خاموش اظہار ہے۔
عشرت و شوکت کا اظہار ناٹے اذہان کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں کم تعلیم یافتہ ملاں نعرے بازیاں کرتے ہیں ، ایک عمیق عالم صرف دھیری آواز سے مخاطب ہوتا ہے کہ آواز کی لہریں بھی وجہِ ارتعاش ہیں۔ میرؔ تو ہمیں سانس بھی آہستہ لینے کا کہتے تھے کیوں کہ وہ آفاق کی نازکی کا احساس رکھتے تھے ۔ دوسری طرف ہم! ہم آفاق تو آفاق، انفس کو بھی پختہ کرنے کے لیے آوازوں، شور شرابوں اور نعروں غلغلوں میں اپنے اعصاب کھو چکے ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ مذہب اور خاموشی دونوں قدسی اظہار ہیں ۔
میرے میزبان نے خاموشی کے معبد سے نکلتے ہی سرگوشی کی …اور مجھے ایک گہرے مراقبے سے جاگنے کا احساس ہوا ،
جواب ایک” آہ” کی صورت میں دیا کہ ہمارے یہاں تو جب تک با آواز بلند نعرہ نہ لگایا جائے، ہمیں دیندار ہونے کی سند نہیں ملتی۔
(آوار نامہ سے اقتباس)